May 3, 2024

قرآن کریم > الـطلاق >sorah 65 ayat 1

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُواالْعِدَّةَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ۭ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا 

اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینے لگو تو اُنہیں اُن کی عدت کے وقت طلاق دو، اور عدت کو اچھی طرح شمار کرو، اور اﷲ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے۔ اُن عورتوں کو اُن کے گھروں سے نہ نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں ، اِلَّا یہ کہ وہ کسی کھلی بے حیائی کا اِرتکاب کریں ۔ اور یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدود ہیں ، اور جو کوئی اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدود سے آگے نکلے، اُس نے خود اپنی جان پر ظلم کیا۔ تم نہیں جانتے، شاید اﷲ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے

آيت 1:  يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ:  «اے نبى (صلى الله عليه وسلم!) جب آپ لوگ اپنى عورتوں كو طلاق دو تو ان كى عدت كے حساب سے طلاق دو اور عدت كا پورا لحاظ ركھو».

نوٹ كيجيے! حضور صلى الله عليه وسلم كو صيغه واحد ميں مخاطب كرنے كے بعد فورًا جمع كا صيغه ﴿طَلَّقْتُمْ﴾ آ گيا هے. اس كا مطلب يه هے كه يه مسئله خود حضور صلى الله عليه وسلم كى ذات سے نهيں، عام اهل ايمان سے متعلق هے اور آپ صلى الله عليه وسلم كو اهل ايمان كے نمائنده، معلّم اور هادى كى حيثيت سے مخاطب كيا گيا هے. عدت كے حساب سے طلاق دينے اور عدت كا لحاظ ركھنے كے بهت سے پهلو هيں. مجموعى طور پر اس كا مطلب يه هے كه اس نازك اور حساس معاملے ميں شريعت كى طے كرده حدود وقيود كا لحاظ ركھو اور متعلقه قوانين كى سختى سے پابندى كرو. مثلًا حيض كى حالت ميں طلاق نه دو، تينوں طلاقيں اكٹھى نه دو، هر طلاق كى عدت كا حساب ركھو، عدت كے دوران عورت كا نكاح نه كرو. مياں بيوى كے درميان ايك يا دو طلاقوں كے بعد هونے والى عليحدگى كى صورت ميں ان دونوں كے آپس ميں دوباره نكاح كے حق كو تسليم كرو، وغيره وغيره.

وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ:  «اور الله كا تقوى اختيار كرو جو تمهارا رب هے».

لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ:  «انهيں مت نكال باهر كرو ان كے گھروں سے»

ايسا نه هو كه غصے ميں طلاق دى اور كها كه نكل جاؤ ميرے گھر سے، ابھى اور اسى وقت! يه طريقه قطعًا غلط هے.

وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ:  «اور وه خود بھى نه نكليں، سوائے اس كے كه وه ارتكاب كريں كسى كھلى بے حيائى كا».

عام حالات ميں تو طلاق كے فورًا بعد عورت كو گھر سے نهيں نكالا جا سكتا، اور نه هى اسے ازخود نكلنے كى اجازت هے. ليكن اس دوران اگر وه بدكارى وغيره ميں ملوث هو جائے تو ايسى صورت ميں اسے اس كے گھر سے نكالا جا سكتا هے.

وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ:  «اور يه الله كى حدود هيں».

وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ:  «اور جو كوئى الله كى حدود سے تجاوز كرے گا تو اُس نے اپنى هى جان پر ظلم كيا».

لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا:  «تمهيں نهيں معلوم كه شايد اس كے بعد الله كوئى نئى صورت پيدا كر دے».

          طلاق كے بعد اگر عورت شوهر كے گھر ميں هى عدت گزار رهى هو تو حالات بهتر هونے كے امكانات بڑھ جاتے هيں. كيا معلوم الله تعالى ان دونوں ميں بهترى كى كوئى صورت پيدا كر دے اور وه پهلى طلاق كے بعد هى رجوع كر ليں اور اس كے بعد الله تعالى كى مشيت سے حالات هميشه كے ليے سازگار هو جائيں.

UP
X
<>