May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 65

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ

کہو کہ : ’’ وہ اس بات پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (نکال دے) یا تمہیں مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے بھڑا دے، اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ! ہم کس طرح مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں واضح کر رہے ہیں ، تاکہ یہ کچھ سمجھ سے کام لے لیں

آیت 65:  قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّــبْعَثَ عَلَـیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِـکُمْ :   ’’کہہ دیجیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر بھیج دے کوئی عذاب تمہارے اوپر سے،،

            مثلاً آسمان کا کوئی ٹکڑا یا کوئی شہابِ ثاقب (meteorite) گر جائے۔ آج کل ایسی خبریں  اکثر سننے کو ملتی ہیں  کہ اس طرح کی کوئی چیز زمین پر گرنے والی ہے،  لیکن پھر اللہ کے حکم سے وہ خلا میں  ہی تحلیل ہو جاتی ہے۔  اسی طرح  o zone کی تہہ بھی اللہ تعالیٰ نے زمین اور زمین والوں  کے بچاؤ کے لیے پیدا کی ہے،  وہ چاہے تو اس حفاظتی چھتری کو ہٹا دے۔ بہرحال آسمانوں  سے عذاب نازل ہونے کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے اور اللہ جب چاہے یہ عذاب نازل ہو سکتا ہے۔

            اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ :   ’’یا تمہارے قدموں  کے نیچے سے،،

            یہ عذاب تمہارے قدموں  کے نیچے سے بھی آ سکتا ہے،  زمین پھٹ سکتی ہے ، زلزلے کے باعث شہروں  کے شہر زمین میں  دھنس سکتے ہیں۔  جیسا کہ حدیث میں  خبر دی گئی ہے کہ قیامت سے پہلے تین بڑے بڑے ’’خسف،،  ہوں  گے،  یعنی زمین وسیع پیمانے پر تین مختلف جگہوں  سے دھنس جائے گی۔ عذاب کی دو شکلیں تو یہ ہیں ، اُوپر سے یا قدموں  کے نیچے سے۔

            اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ:   ’’یا تمہیں  گروہوں  میں  تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھائے۔،،

            یہ خانہ جنگی کی صورت میں  عذاب کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے عوام یا قوم کے مختلف گروہ آپس میں  لڑ پڑیں ۔جیسے پنجابی اور اردو بولنے والے آپس میں  الجھ جائیں ،  بلوچ اور پختون ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں ،  شیعہ سنی کو مارے اور سنی شیعہ کو۔ اللہ تعالیٰ کو آسمان سے کچھ گرانے کی ضرورت ہے نہ زمین کو دھنسانے کی۔ یہ گروہ بندی اور اس کی بنیاد پر باہمی خون ریزی عذابِ الٰہی کی بد ترین شکل ہے، جو آج مسلمانانِ پاکستان پر مسلط ہے۔ تقسیم ہند سے قبل جب ہندو سے مقابلہ تھا تو مسلمان ایک قوم تھے۔  پاکستان بنا تو اُس کے تمام باسی پاکستانی تھے۔ اب یہی پاکستانی قوم چھوٹی چھوٹی قومیتوں  اور عصبیتوں  میں  تحلیل ہو چکی ہے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کا دشمن ہے۔

            اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَـعَلَّہُمْ یَفْقَہُوْنَ:   ’’دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیات کی تصریف کرتے ہیں  تاکہ وہ سمجھیں ۔،،

            تصریف کے معنی ہیں گھمانا۔ ع: ’’اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں،،  کے مصداق ایک ہی بات کو اسلوب بدل بدل کر ، مختلف انداز میں  ،  نئی نئی ترتیب کے ساتھ بیان کرنا۔

UP
X
<>