May 8, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 12

قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ قُل لِلّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَ رَيْبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ 

 (ان سے) پوچھو کہ : ’’ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کی ملکیت ہے ؟ ‘‘ (پھر اگر وہ جواب نہ دیں تو خود ہی) کہہ دو کہ : ’’ اﷲ ہی کی ملکیت ہے۔ اس نے رحمت کو اپنے اُوپر لازم کر رکھا ہے۔ (اس لئے توبہ کرلو تو پچھلے سارے گناہ معاف کر دے گا، ورنہ) وہ تم سب کو ضرور بالضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے، (لیکن) جن لوگوں نے اپنی جانوں کیلئے گھاٹے کا سودا کر رکھا ہے، وہ (اس حقیقت پر) ایمان نہیں لاتے

آیت 12:   قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ قُلْ لِّلّٰہِ:   ’’ان سے پوچھئے کس کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں اور زمین میں؟ کہہ دیجیے اللہ ہی کا ہے!‘‘

             دراصل یہ کہنا اس اعتبار سے ہے کہ مشرکین مکہ بھی یہ مانتے تھے کہ اس کائنات کا مالک اور خالق اللہ ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ لات‘  منات‘  عزیٰ اور ہبل نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ وہ ایسے احمق نہیں تھے۔ اپنے ان معبودوں کے بارے میں اُن کا ایمان تھا: ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ:    ( یونس: 18) کہ یہ اللہ کی جناب میں ہماری شفاعت کریں گے۔ سورۃ العنکبوت (آیت: 61)  میں الفاظ آئے ہیں: وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَـیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ.  ’’(اے نبی)  اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے ہیں اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے؟ تو یہ لازماً کہیں گے کہ اللہ نے!‘‘  چنانچہ وہ لوگ کائنات کی تخلیق کو اللہ ہی کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس کا مالک بھی اللہ ہی کو سمجھتے تھے۔ البتہ ان کا شرکیہ عقیدہ یہ تھا کہ ہمارے یہ معبود اللہ کے بڑے چہیتے اورلاڈلے ہیں‘  اللہ کے ہاں ان کے بڑے اونچے مراتب ہیں‘  یہ ہمیں اللہ کی پکڑ سے چھڑوا لیں گے۔

            کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ:   ’’ اُس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔‘‘

            یہ لزوم اُس نے خود اپنے اوپر کیا ہے‘  ہم اُس پر کوئی شے لازم قرار نہیں دے سکتے۔

            لَیَجْمَعَنَّـکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ:   ’’وہ تمہیں لازماً جمع کر کے لے جائے گا قیامت کے دن کی طرف جس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘

            اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ:   ’’جو لوگ اپنے آپ کو خسارے میں ڈالنے کا فیصلہ کر چکے ہیں وہی ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘

            یہاں ایک غور طلب نکتہ یہ ہے کہ قیامت کا دن تو بڑا سخت ہو گا‘ جس میں احتساب ہو گا‘  سزا ملے گی۔ پھر یہاں پر رحمت کے لزوم کا ذکر کس حوالے سے آیا ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رحمت کا ظہور قیامت کے دن خاص اہل ایمان کے لیے ہو گا۔ اس لحاظ سے یہاں خوشخبری ہے انبیاء و رُسل کے لیے‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین کے لیے‘  اور اہل ایمان کے لیے‘  کہ جو سختیاں تم جھیل رہے ہو‘  جو مصیبتیں تم لوگ برداشت کر رہے ہو‘  اس وقت دنیا میں جو تنگی تمہیں ہو رہی ہے‘  اس کے بدلے میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وہ وقت آکر رہے گا جب تمہاری ان خدمات کا بھرپور صلہ ملے گا‘  تمہاری ان ساری سرفروشیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سر محشر قدرافزائی کا اعلان ہو گا۔ کبھی تمہیں یہ خیال نہ آنے پائے کہ ہم تو اپنا سب کچھ یہاں اللہ کے لیے لٹا بیٹھے ہیں‘  پتا نہیں وہ دن آئے گا بھی یا نہیں‘ پتا نہیں کوئی ملاقات ہوگی بھی یا نہیں‘  پتا نہیں یہ سب کچھ واقعی حق ہے بھی یا نہیں! ان وسوسوں کو اپنے دل و دماغ سے دور رکھو‘  اور خوشخبری سنو: کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَـیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ.  

UP
X
<>