May 18, 2024

قرآن کریم > ق >sorah 50 ayat 37

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيْدٌ

یقینا اس میں اُس شخص کیلئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یاجو حاضر دِماغ بن کر کان دھر ے

آيت 37:  إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ:  «يقينًا اس ميں ياد دهانى هے اس كے ليے جس كا دل هو يا جو توجه سے سنے حاضر هو كر».

اپنے مضمون كے اعتبار سے يه قرآن مجيد كا بهت اهم مقام هے. ياد دهانى كے حوالے سے اس آيت ميں دو طرح كے لوگوں كا ذكر هوا هے، يه ياد دهانى يا تو ان كے ليے مفيد هے جو دل ركھتے هيں، يا پھر وه جو پورى توجه سے اس كو سنيں. گويا يهاں قرآن كى هدايت تك پهنچنے كے دو الگ الگ طريقوں اور راستوں (approaches) كا ذكر هے. ايك ان لوگوں كا راسته هے جو دل ركھتے هيں. يه در اصل وه لوگ هيں جن كى روح زنده هے. روح كا مسكن چونكه قلبِ انسانى هے، اس ليے جس انسان كى روح زنده هو گى اس كا دل بھى زنده هوگا. ايسے دل كو دلِ بيدار يا قلبِ سليم كها جاتا هے. مير درد نے اپنے اس شعر ميں دل كى اسى «زندگى» كا ذكر كيا هے:

مجھے يه ڈر هے دلِ زنده تو نه مر جائے

كه زندگانى عبارت هے  تيرے جينے سے

چنانچه ايك زنده دل شخص جب قرآن سنے گا تو اس شخص كى روح يوں لپك كر قرآنى پيغام تك پهنچ جائے گى جيسے پٹرول دور سے آگ پكڑ ليتا هے. اس كيفيت كو سورة النور كى آيت: 35 ميں اس طرح بيان فرمايا گيا هے: (يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ) (النور: 35)  «قريب هے كه اس كا روغن خود بخود روشن هو جائے، چاهے اسے آگ نے ابھى چھوا بھى نه هو». گويا ايك پاكيزه روح نورِ وحى تك پنهچنے كے ليے بے قرار هوتى هے. بقولِ اقبال:

مضطرب باغ كے هر غنچے ميں هے بوئے نياز

تو ذرا چھيڑ تو دے    تشنه مضراب  هے  ساز

نغمے بے تاب هيں تاروں سے نكلنے كے ليے

طور مضطر هے اسى آگ ميں جلنے كے ليے!

حافظ ابن قيم نے اس بارے ميں بڑى خوب صورت بات لكھى هے: كه بهت سے لوگ قرآن كو پڑھتے هوئے يوں محسوس كرتے هيں جيسے قرآن ان كے دل پر نقش هے، اور وه اس كى عبارت كو مصحف سے نهيں بلكه اپنى لوحِ قلب سے پڑھ رهے هيں. يعنى سليم الفطرت لوگوں كى ارواح كو قرآن حكيم كے ساتھ خصوصى هم آهنگى هوتى هے. ايسے لوگ جب قرآن مجيد كى تلاوت كرتے هيں تو ان كى روحوں ميں ايك مانوس قسم كا ارتعاش (sympathetic vibration) پيدا هوتا هے. گويا ان كى ارواح قرآنى الفاظ وآيات كے ساتھ پهلے سے هى مانوس هيں. بقولِ غالب:

ديكھنا تقرير  كى  لذت      كه  جو  اس نے كها

ميں نے يه جانا كه گويا يه بھى ميرے دل ميں هے

ايسے لوگوں كو قرآن كى هدايت تك پهنچنے كے ليے كسى مهلت يا تگ ودو كى ضرورت نهيں هوتى. جيسے حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه نے قبولِ حق ميں ايك لمحے كا توقف بھى نهيں كيا تھا. اس كے برعكس وه لوگ جن كى ارواح پر غفلت اور ماديت كے پردے پڑ چكے هوں، ان كے ليے اس آيت ميں دوسرا طريقه بتايا گيا هے: «أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ»، يعنى ان لوگوں كو خصوصى توجه كے ساتھ محنت كرنا هو گى، تب كهيں جا كر «گوهرِ مقصود» تك ان كى رسائى هوگى. مطالعه قرآن كے همارے منتخب نصاب ميں ايمان كى بحث كے تحت دو دروس (درس: 6 اور7) ايسے هيں جو انهى دو طريقوں كى الگ الگ نمائندگى كرتے هيں. ان ميں پهلا درس سوره آلِ عمران كى آيات: 190 تا 195 پر مشتمل هے. ان آيات ميں آياتِ آفاقى كے مشاهدے كى بنياد پر تفكر وتدبر كى دعوت دى گئى هے:

«إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ  الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» (آيت: 190، 191)

«يقينا آسمانوں اور زمين كى تخليق ميں اور رات اور دن كے الٹ پھير ميں هوش مند لوگوں كے ليے نشانياں هيں. جو الله كا ذكر كرتے رهتے هيں، كھڑے بھى، بيٹھے بھى اور اپنے پهلوؤں پر بھى اور مزيد غور وفكر كرتے رهتے هيں آسمانوں اور زمين كى تخليق ميں. اے همارے رب! تو نے يه سب كچھ بے مقصد تو پيدا نهيں كيا هے. تو پاك هے (اس سے كه كوئى عبث كام كرے)، پس تو هميں دوزخ كے عذاب سے بچا!».

ليكن يه تفكر وتدبر تب نتيجه خيز هوگا جب اس كے ساتھ الله كے ذكر كا بھى اهتمام كيا جائے گا. گويا ايمان وهدايت كى منزلِ مقصود تك پهنچنے كے ليے ذكر اور فكر دونوں كو ايك ساتھ لے كر چلنا هو گا، جيسا كه اقبال نے كها هے:

فقرِ قرآن   اختلاط  ذكر  وفكر

فكر را كامل نه ديدم جز به ذكر

جز به قرآن ضيغمى روباهى است

فقرِ قرآن اصل شاهنشاهى است

يعنى فقرِ قرآن تو ذكر اور فكر كے امتزاج كا نام هے جب كه ميں ذكر كے بغير فكر كو ناقص اور نا مكمل ديكھتا هوں. اگر كوئى شير بھى هو تو قرآن كے بغير وه لومڑى كى طرح هو گا، اصل شهنشاه تو وه هے جسے فقرِ قرآنى مل گيا.

اس ضمن ميں همارى بد قسمتى يه هے كه همارے هاں ذكر اور فكر كے الگ الگ حلقے بن چكے هيں. ان ميں سے هر حلقے كے لوگ اپنے طور طريقوں ميں اس قدر مگن هيں كه انهيں دوسروں سے كچھ سرو كار نهيں. ايك طرف مفكرين هيں جو فلسفه وفكر پر بڑى بڑى كتابيں رقم كر رهے هيں، كيسى كيسى تفسيريں لكھتے جاتے هيں، مگر وه ذكر كى لذت سے بالكل نا آشنا هيں. دوسرى طرف ذاكرين هيں جو ذكر كى روح پرور محفليں سجاتے هيں، ليكن انهيں فكر وتدبر سے كوئى واسطه نهيں. ظاهر هے گاڑى كے ان دونوں پهيوں ميں هم آهنگى هو گى تو امت كا قافله منزل كى طرف گامزن هوگا. بهر حال سورة آل عمران كى مذكوره آيات ميں ذكر وفكر كے ذريعے هدايت كى «منزل مقصود» تك پهنچنے كا طريقه بتايا گيا هے، جبكه دوسرے طريقے كى نشاندهى سورة النور كے پانچويں ركوع (منتخب نصاب كے درس:7) ميں كى گئى هے كه اپنے قلب كو صاف كر ليجيے، اس كى تمام كدورتيں دور كر ديجيے تو اس كے آئينے ميں قرآن خود بخود منعكس هو كر اسے منور (نورٌ على نورٍ) كر دے گا اور يوں نورِ فطرت اور نورِ وحى كے امتزاج سے نورِ ايمان كى تكميل هو جائے گى.

UP
X
<>