May 5, 2024

قرآن کریم > محمّـد >sorah 47 ayat 4

فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاء اللَّهُ لانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ

اور جب اُن لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہو جنہوں نے کفر اِختیار کر رکھا ہے، تو گردنیں مارو، یہاں تک کہ جب تم اُن کی طاقت کچل چکے ہو، تو مضبوطی سے گرفتار کر لو، پھر چاہے احسان کر کے چھوڑ دو، یا فدیہ لے کر، یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار پھینک کر ختم ہو جائے۔ تمہیں تو یہی حکم ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو خود ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (تمہیں یہ حکم اس لئے دیا ہے) تاکہ تمہارا ایک دوسرے کے ذریعے امتحان لے۔ اور جو لوگ اﷲ کے راستے میں قتل ہوئے، اﷲ اُن کے اعمال کو ہر گز اکارت نہیں کرے گا

آیت ۴ فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا: ’’تو (اے مسلمانو!) جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو کافروں سے‘‘

          اب جبکہ تمہاری جدوجہد مسلح تصاد م کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور تم لوگ تلوار کا جواب تلوار سے دینے کے لیے میدان میں اُتر پڑے ہو تو جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے:

          فَضَرْبَ الرِّقَابِ: ’’تو ان کی گردنیں مارنا ہے!‘‘

          اب میدان کارزار میں تمہاری پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ جو دشمن حق تمہارے سامنے آئے وہ بچ کر نہ جائے۔ لہٰذا ان کی گردنیں اُڑاؤ‘ انہیں قتل کرو!

          حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ: ’’یہاں تک کہ جب تم انہیں اچھی طرح سے ُکچل دو تب انہیں مضبوطی کے ساتھ باندھو‘‘

          یعنی اس مرحلے پر تم بچے کھچے لوگوں کو قیدی بنا سکتے ہو۔

          فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا: ’’پھر اس کے بعد (تم انہیں چھوڑ سکتے ہو) احسان کر کے یا فدیہ لے کر‘ یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔‘‘

          اس آیت کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر کے اسلوب پرغور کرنے سے معلوم ہو گا کہ الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے: ’’فَضَرْبَ الرِّقَابِ، حَتّٰٓی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ، حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً‘‘۔ گویا اس جملے کے مطابق مقابلے کے مختلف مراحل کی ترتیب یہ ہو گی: پہلے ان کی گردنیں مارو‘ جب ان کی طاقت اچھی طرح کچل ڈالی جائے تب انہیں قید میں مضبوط باندھو۔ پھر جب جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد انہیں چھوڑا جا سکتا ہے‘ چاہے احسان کر کے چھوڑو یا فدیہ لے کر۔

          آیت کے درست مفہوم تک پہنچنے کے لیے اس اہم فلسفے کو بھی سمجھنا ضروری ہے جو یہاں ’’حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اس کے لیے انگریزی کے دو الفاظ  war اور battle کو ذہن میں رکھئے۔ war سے مراد دو فریقوں کی باہمی محاذ آرائی اور کشمکش ہے جو ایک فریق کے فتح یاب اور دوسرے کے سرنگوں ہونے تک جاری رہتی ہے‘ جبکہ battle سے مراد اس محاذ آرائی کے دوران متعلقہ فریقوں کے درمیان ہونے والا کوئی خاص معرکہ ہے۔ گویا ایک جنگ(war) کے دوران میں کئی لڑائیاں (battles) ہو سکتی ہیں۔ اب رسول اللہ کی جدوجہد کے حوالے سے اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ مدنی دور میں غلبہ دین کی جنگ (war) چھ سال تک مسلسل جاری رہی   ---- اس میں صرف صلح حدیبیہ کی وجہ سے کچھ مدت کے لیے ایک وقفہ آیا تھا ----  اس جنگ کے دوران غزوه بدر (Battle of Badar)‘ غزوہ اُحد (Battle of Uhad)‘ غزوۂ احزاب (Battle of Ahzaab)‘ غزوۂ بنی مصطلق (Battle of Bani Mustalaq) اور بہت سی دوسری لڑائیاں لڑی گئیں۔ لیکن جنگ (war) نے مکمل طور پر ہتھیار اُس وقت ڈالے جب پورے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین اس حد تک غالب ہو گیا کہ اس کے مقابلے میں باطل کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت باقی نہ رہی۔

          چنانچہ زیر مطالعہ آیت میں جو حکمت بیان ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کے آخری مرحلے یعنی مسلح تصادم میں جب باطل قوتوں کو علی الاعلان للکارا جا چکا ہو اور مردانِ حق اپنے سروں پر کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں اتر پڑے ہوں تو یہ پنجہ آزمائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل پوری طرح سرنگوں نہ ہو جائے۔ اس دوران کسی مہم یا کسی لڑائی میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو کسی بھی شرط پر آزاد کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ انہیں اگلے معرکے میں دوبارہ اپنے مقابلے میں آنے کا موقع دے رہے ہیں۔ جیسے غزوۂ بدر میں کفار کے ستر(۷۰) جنگجوؤں کے مارے جانے سے ان کی طاقت کو ایک حد تک تو نقصان پہنچا تھا‘ مگر ان کی جنگی صلاحیت پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ان کے ۷۰ قیدیوں کی آزادی ان کے لیے پھر سے تقویت کا باعث بن گئی اور فدیہ دے کر آزاد ہونے والے قیدیوں میں سے اکثر افراد اگلے سال مسلمانوں کے مقابلے کے لیے پھر سے میدان میں تھے۔

          دوسری طرف اس حوالے سے ایک نکتہ یہ بھی ذہن نشین کر لیجئے کہ غزوۂ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے سے متعلق حضور کا فیصلہ ایک اجتہاد تھا‘ جس کا تعلق جانچ(judgement) سے تھا ۔ یعنی اس معاملے میں حضور کا اندازہ تھا کہ کفار کی طاقت کچلی جا چکی ہے ‘لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ بہر حال اجتہاد کی دونوں صورتیں (خطا اور صواب) ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں اور دونوں پر ہی اجر بھی ملتا ہے۔ البتہ اجتہاد میں تصویب کی صورت میں دہرے اجر کا وعدہ ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں چونکہ قیدیوں کو فدیے کے عوض رہا کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اس لیے حضور نے اس اختیار کی رو سے مذکورہ فیصلہ فرمایا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو بہتر طور پر معلوم تھا کہ کفر کی جنگی صلاحیت ابھی ختم نہیں ہوئی۔اسی لیے سورۃ الانفال (جو اس سورت کے بعد نازل ہوئی) میں حضور کے اس فیصلے سے متعلق یہ تبصرہ نازل ہوا تھا: مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ: ’’کسی نبی کے لیے یہ روا نہیں کہ اُس کے قبضے میں قیدی ہوں جب تک کہ وہ (کافروں کو قتل کرکے) زمین میں خوب خوں ریزی نہ کر دے ۔تم دنیا کا سازو سامان چاہتے ہو‘ اور اللہ کے پیش نظر آخرت ہے‘ اور اللہ عزیز اور حکیم ہے‘‘۔ لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ: ’’اگر اللہ کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو جو کچھ (فدیہ وغیرہ) تم نے لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا سخت عذاب آتا‘‘۔ یہاں ’’کتاب‘‘ سے مراد آیت زیر مطالعہ کا یہ حکم ہے جس میں فدیہ کے عوض قیدیوں کو چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۂ محمد کی آیت ۴ کا حکم پہلے سے نازل نہ ہو چکا ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تم پر سخت گرفت ہوتی ۔ فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ:  ’’تو اب کھاؤ جو تمہیں ملا ہے غنیمت میں سے (کہ وہ تمہارے لیے) حلال اور طیب (ہے)‘ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ بخشنے والا‘ رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

          سورۃ الانفال کی یہ آیت بھی مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے بھی آیت زیر مطالعہ کی درست تفہیم ضروری ہے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں خوب قتل کرو‘ پھر جب کفرکی کمر پوری طرح ٹوٹ جائے تو ان کے بچے کھچے زندہ افراد کو قیدی بھی بنا یا جا سکتا ہے۔ پھر جب دشمن کی طرف سے مزاحمت بالکل ختم ہو جائے اور ا س کے خلاف تمہاری جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے تو قیدیوں کو آزاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ چاہے ان کے عوض فدیہ لے لو یا احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ انہیں رہا کر دو۔

          ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ: ’’یہ ہے (اس بارے میں حکم)‘ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا‘‘

          وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ: ’’لیکن اللہ آزماتا ہے تمہارے بعض لوگوں کو بعض دوسروں کے ذریعے سے۔‘‘

          اللہ تعالیٰ ان کفار سے خود بھی انتقام لے سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو میدانِ بدر میں کفار کے ایک ہزار نفوس پر مشتمل لشکر کو آنِ واحد میں بھسم کر کے رکھ دیتا۔ لیکن اس نے تمہارے تین سو تیرہ افراد کو ایک ہزار کے طاقت ور لشکر کے مقابلے میں لا کر تمہارے صبر و ایمان اور جذبہ ٔ استقامت کا امتحان لینا پسند کیا۔

          وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے تو اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

UP
X
<>