April 25, 2024

قرآن کریم > محمّـد

محمّـد

بسم الله الرحمن الرحيم

سورۃ الاحقاف کے اختتام پر مکی مدنی سورتوں کے پانچویں گروپ کی تیرہ مکی سورتوں (سورۂ سبا تا سورۃ الاحقاف) کا مطالعہ مکمل ہو گیا۔ اب ہم اس گروپ کی تین مدنی سورتوں کا مطالعہ کریں گے۔ان میں پہلی دو سورتیں یعنی سورۂ محمد اور سورۃ الفتح تو ہم وزن ہیں اور ان میں باہم جوڑے کا تعلق بھی ہے ‘جبکہ تیسری سورت یعنی سورۃ الحجرات کو سورۃ الفتح کا ضمیمہ کہا جا سکتا ہے‘اگرچہ سورۃ الحجرات مسلمانوں کی سیاسی و ملی زندگی کے استحکام کے لیے ہدایات کے اعتبار سے قرآن حکیم کی اہم ترین سورت ہے۔

          سورۂ محمد اور سورۃ الفتح کی باہمی نسبت ان دونوں کی ترتیب کے اس ربط سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ان میں پہلی سورت کی نسبت حضور کی مسلح جدوجہد کے آغاز سے ہے جبکہ دوسری کاتعلق اس جدوجہد کے اختتام سے۔ یعنی سورۂ محمدکا نزول حضور کی انقلابی جدوجہد کے مرحلہ ٔتصادم کے آغاز (غزوۂ بدر) سے متصلاًقبل ہوا جبکہ سورۃ الفتح اس مرحلے کی آخری فتح یعنی فتح مکہ سے متصلاً قبل نازل ہوئی۔

          سورۂ محمد کا دوسرا نام ’’سورۃ القتال ‘‘ بھی ہے۔ اپنے زمانۂ نزول کے اعتبار سے یہ گویا سورۃ البقرۃ کا ضمیمہ ہے۔ سورۃ البقرۃ کی بیشتر آیات ہجرت کے بعد سے لے کر غزوۂ بد رتک کے زمانہ میں نازل ہوئیں اور اس کے مکمل ہونے کے فوراً بعد اور غزوۂ بدر سے متصلاًقبل سورۂ محمد اس وقت نازل ہوئی جب حضور کی تحریک ’’اقدام‘‘ کے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ اس مرحلے کا آغاز سورۃ الحج کے اس حکم سے ہوا : اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا: (آیت ۳۹)’’اب اجازت دی جا رہی ہے (قتال کی) ان لوگوں کو جن پر جنگ مسلط کی گئی ہے ‘اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیاہے۔‘‘

          اس سے پہلے مکی دور کے دوران مسلمان صبر ِمحض (passive resistance) اور ہاتھ بندھے رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھے اوراس دور میں انہیں اپنے دفاع میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ جب حضرت خباب بن الارت سے کہا گیا کہ کپڑے اتار دو تو آپؓ نے اتار دیے‘ پھر جب کہا گیا کہ دہکتے ہوئے انگاروں پر پشت کے َبل لیٹ جائو تو آپؓ نے اس حکم کی بھی بلا حیل وحجت تعمیل کی۔ اسی طرح ابو جہل علی الاعلان آلِ یاسر کو   وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا لیکن کسی مسلمان کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

          بہر حال سورۃ الحج کی مذکورہ آیت کے نزول کے بعد حکمت عملی یکسر تبدیل ہو گئی۔ اب تو گویا سربکف ہو کر میدان میں نکلنے کا حکم تھا۔ یہ حکم ان لوگوں کے لیے بہت بھاری تھا جن کے دلوں میں روگ تھا۔ چنانچہ منافقین اصلاح اور صلح جوئی کے نام پر جہاد و قتال کے خلاف ہر وقت ہر زہ سرائی کرتے رہتے تھے کہ اس لڑائی بھڑائی کا کیا فائدہ؟ …اگر کوئی دشمن ُگڑ کھلانے سے مر جائے تو اسے زہر دینے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟… ہمیں تو اپنے دعوت و تبلیغ کے کام کو جاری رکھنا چاہیے… قریش مکہ کے خلاف مہم جوئی کرنا اچھا اقدام نہیں… ان کے تجارتی قافلوں کے تعاقب جیسی چھیڑ چھاڑ کرنے کے خطرناک نتائج نکلیں گے …وغیرہ وغیرہ۔ وہ اس طرح کی باتیں دراصل اپنے بچائو کے لیے کرتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ کسی امتحان میں پڑیں اور ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہو۔ سورۃ البقرۃ کے دوسرے رکوع میں ان کے کردار کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے: وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰـکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ: ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ مت فساد کرو زمین میں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ آگاہ ہو جائو ! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں‘ مگرا نہیں شعور نہیں۔‘‘

          منافقین کی طرف سے پیدا کردہ منفی پروپیگنڈے کے اسی ماحول میں سورۂ محمد  نازل ہوئی۔ اسلوب کے اعتبار سے یہ سورت پورے قرآن میں بالکل منفرد ہے۔ دوسری سورتوں کی طرح سورۂ محمدؐ کے آغاز میں حروف ِمقطعات یا حمدیہ الفاظ یا قرآن کی تنزیل و عظمت کے بارے میں تعارفی کلمات پر مبنی کوئی اسلوب بھی نہیں پایا جاتا ‘بلکہ اس کا آغاز بغیر کسی تمہید کے بالکل یک لخت (abruptly) ہوتا ہے اور وہ بھی لفظ اَلّذِیْنَ سے‘ جو کہ کسی جملے کے آغاز کے لیے عام اسلوب نہیں ہے۔ اسی طرح اس سورت کا اختتام بھی عام سورتوں کے انداز سے ہٹ کر اچانک اختتامیہ کلمات کے بغیر ہی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سورت کی ہر آیت کا بھی یہی انداز ہے۔ یعنی اس کی ہر آیت یک لخت شروع ہوتی ہے اور اسی طرحیک لختختم ہو جاتی ہے۔ دوسری اکثر سورتوں کے اسلوب کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ عام طور پر ان کی آیات کا اختتام اسمائے حسنیٰ یا اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذکر پر ہوتا ہے‘ لیکن اس سورت کی آیات میں یہ اسلوب بھی نظر نہیں آتا۔ گویا اپنے اسلوب اور انداز کے اعتبار سے یہ ایک بالکل ہی منفرد سورت ہے۔

UP
X
<>