May 8, 2024

قرآن کریم > الزخرف >sorah 43 ayat 81

قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ

(اے پیغمبر !) کہہ دو کہ : ’’ اگر خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلا عبادت کرنے والا میں ہوتا۔‘‘

آیت ۸۱:  قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَـدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ : ’’ (اے نبی !) آپ ان سے کہیے کہ اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو سب سے پہلا اس کی عبادت کرنے والا میں ہوتا۔ ‘‘

          کہ جب میں خدائے رحمان کو اپنا معبود مانتا ہوں اور اس کی پرستش کرتا ہوں‘ اگر واقعتا اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو اس کی پرستش کرنے میں مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔  یہ نفی کا بہت تیکھا انداز ہے۔  اس اسلوب کو ’’ تعلیق بالمحال ‘‘کہا جاتا ہے۔  ظاہر بات ہے کہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے‘ اس لیے اس کی اولاد کو پوجنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔  ’’تعلیق بالمحال‘‘ کا یہی اسلوب اس حدیث میں بھی پایا جاتا ہے: ( (لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا) ) ’’اگر ابراہیم زندہ رہتا تو وہ صدیق نبی ہوتا۔ ‘‘

          ایک دفعہ ٹورنٹو (کینیڈا) میں ایک قادیانی نے میرے ساتھ بحث کے دوران نبوت کے تسلسل کو ثابت کرنے کے لیے اسی حدیث کا حوالہ دیا تھا۔  اس حدیث میں حضور کے بیٹے حضرت ابراہیم کا ذکر ہے‘ جو حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی فوت ہو گئے۔  ان کے بارے میں حضور نے فرمایا تھا کہ اگر وہ زندہ رہتے تو وہ نبی ہوتے۔  اللہ کی مشیت کے مطابق ان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا‘ اس لیے نہ تو انہوں نے زندہ رہنا تھا اور نہ ہی نبوت کے سلسلے کو آگے چلنا تھا۔  بہر حال مذکورہ قادیانی نے اس حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی۔  میں نے اس کے جواب میں دلیل کے طور پر اسی آیت کا حوالہ دیا تھا ((قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ)) کہ یہاں جو حضور سے کہلوایا جا رہا ہے کہ اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔  تو کیا حضور کا اللہ کے علاوہ کسی اور کو پوجنے کا کچھ بھی امکان تھا؟ اس پر اس نے تسلیم کیا کہ آپ کی یہ دلیل واقعتا مضبوط ہے۔ 

UP
X
<>