May 18, 2024

قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 20

حَتَّى إِذَا مَا جَاؤُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

یہاں تک کہ جب وہ اُس (آگ) کے پاس پہنچ جائیں گے تو اُن کے کان، اُن کی آنکھیں اور اُن کی کھالیں اُن کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں

آیت ۲۰:  حَتّٰٓی اِذَا مَا جَآءُوْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ: ’’یہاں تک کہ جب یہ وہاں پہنچیں گے تو ان کے خلاف گواہی دیں گے ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں اس بارے میں جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے۔‘‘

        ’’شہادت‘‘ کے بارے میں یہ بات بتکرار و اعادہ بیان کی جا چکی ہے کہ شہادت کسی کے خلاف ہوتی ہے اور کسی کے حق میں۔ چنانچہ شَھِدَ کے بعد اگر عَلٰی کا صلہ ہو تو اس کے معنی کسی کے خلاف گواہی دینے کے ہوں گے (جیسا کہ آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے) جبکہ شَھِدَ کے ساتھ ’’ل‘‘کا صلہ آنے کی صورت میں کسی کے حق میں گواہی کا مفہوم نکلے گا۔ مثلاً (کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ) (المائدہ: ۸) اور کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ: (النساء: ۱۳۵)۔ ان دونوں آیات میں لفظ اللہ کے ساتھ ’’ل‘‘ اللہ کے لیے گواہی کا مفہوم دے رہا ہے، کہ تم لوگ اللہ کے لیے کھڑے ہو کر گواہی دینے والے بن جاؤ! بقول اقبال: ع

 ’’دے تو بھی محمد کی صداقت کی گواہی !‘‘

UP
X
<>