May 4, 2024

قرآن کریم > غافر >sorah 40 ayat 3

غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ

جو گناہ کو معاف کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا، بڑی طاقت کا مالک ہے۔ اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ اُسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے

آیت ۳:   غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ  ذِی الطَّوْلِ:  ’’(وہ اللہ کہ جو) بخشنے والا ہے گناہ کا‘ قبول کرنے والا ہے توبہ کا‘ سزا دینے میں بہت سخت ہے‘ وہ بہت طاقت اور قدرت والا ہے۔‘‘

        یہاں اللہ تعالیٰ کی چار شانوں کا ذکر مرکب اضافی کی صورت میں ہوا ہے۔ آگے چل کر بھی اس سورت میں اسمائے حسنیٰ کے حوالے سے یہ انداز اور اسلوب نظر آئے گا۔

         لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَ اِلَـیْہِ الْمَصِیْر:  ’’اُس کے علاوہ کوئی معبود نہیں‘ اور اُسی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔‘‘

        یہاں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس سورت میں ’’توبہ‘‘ اور ’’استغفار‘‘ کا ذکر بار بار آئے گا‘ بلکہ اس حوالے سے فرشتوں کا ذکر بھی آئے گا کہ وہ بھی بندوںکے لیے استغفار کرتے ہیں۔ سورۃ المؤمن کا سورۃ الزمر کے ساتھ چونکہ جوڑے کا تعلق ہے اس لیے ان دونوں سورتوں کے بنیادی اور مرکزی مضمون میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس مماثلت کے حوالے سے قبل ازیں تمہیدی کلمات میں بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ سورۃ الزمر کا مرکزی مضمون ’’توحید فی العبادت‘‘ ہے اور سورۃ المؤمن کا مرکزی مضمون ’’توحید فی الدعاء‘‘ ہے۔ ’’دعا‘‘ کے بارے میں حضور کا فرمان ہے: ((اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ)) یعنی دعا عبادت کا جوہر ہے۔ ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں: ((اَلدُّعُاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ)) کہ دعا ہی اصل عبادت ہے۔ اس لحاظ سے توحید فی العبادت اور توحید فی الدعاء آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ چنانچہ جس طرح عبادت کے حوالے سے سورۃ الزمر میں بار بار ’’مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ‘‘ کی تکرار ہے‘ اسی طرح اس سورت میں  فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ  کی بار بار تاکید ہے۔ یعنی دعا کرو اللہ سے اُس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ ایسا نہ ہو کہ دعا تو اللہ سے مانگو اور اطاعت کسی اور کی کرو۔ اگر ایسا ہو گا تو یہ انتہائی بے تکی حرکت ہو گی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کو جزوی اطاعت قبول نہیں اسی طرح اسے اس شخص کی دعا سننا بھی منظور نہیں جو اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ کسی اور کی اطاعت کا طوق بھی اپنی گردن میں ڈالے ہوئے ہے۔ چنانچہ ایسے شخص کو چاہیے کہ جس ’’معبود‘‘ کی وہ اطاعت کرتا ہے‘ دعا بھی اُسی سے کرے۔

        آج ہم پاکستانیوں کو من حیث القوم اس تناظر میں اپنی حالت کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آج ہم ہر میدان میں ذلیل و رسوا کیوں ہو رہے ہیں اور روز بروز ہمارے قومی و ملکی حالات بد سے بد تر کیوں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں نہ صرف ہمارا ملک دولخت ہو گیا بلکہ بد ترین شکست کا داغ بھی ہمارے ماتھے پر لگ گیا۔ آج ہماری حالت پہلے سے بھی بدتر ہے۔ اس وقت ہمارے باقی ماندہ ملک کی سلامتی بھی ڈانواں ڈول ہے۔ انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ مانگی گئی ہماری دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور رو رو کر کی گئی فریادیں بھی نہیں سنی جاتیں۔ یہ دراصل کوئی غیر متوقع اور غیر معمولی صورت ِحال نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی و قومی رویے کا منطقی نتیجہ ہے۔ اور یہ رویہ یا طرزِ عمل کیا ہے؟ آج ہم نے اپنی ترجیحات بدل لی ہیں‘ ہماری اطاعت اللہ کے لیے خالص نہیں رہی‘ بلکہ ہم اللہ کی اطاعت کو چھوڑ کر بہت سی دوسری اطاعتوں کے غلام بن گئے ہیں۔ ہم نے اللہ کے نام پر یہ ملک اس وعدے کے ساتھ حاصل کیا تھا کہ اس ملک میں ہم اللہ کے دین کا بول بالا کریں گے۔ مگر آج ہم اللہ کے ساتھ کیے گئے اس وعدے سے ِپھر چکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں وہ ہماری دعائیں کیوں کر سنے گا؟ کیوں وہ ہماری فریاد رسی کرے گا اور کیوں ہماری مدد کو پہنچے گا؟ چنانچہ آج اصولی طور پر ہمیں چاہیے کہ ہم دعائیں بھی اُسی ’’سپر پاور‘‘ سے کریں جس کی اطاعت کا طوق اپنی گردنوں میں ڈالے پھرتے ہیں۔

UP
X
<>