April 23, 2024

قرآن کریم > غافر

غافر

بسم الله الرحمن الرخيم

سُورۃُ الْمُؤْمِن

تمہیدی کلمات

        سورۃ المؤمن کا دوسرا نام ’’سوره غافر‘‘ بھی ہے۔ غافر (معاف کرنے والا) اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے جو اس سورت کی تیسری آیت میں آیا ہے۔ اسی طرح اس سے اگلی سورت یعنی سورۂ حٰمٓ السّجدۃ کا دوسرا نام سورۂ فُصِّلَت ہے ۔ ان دو سورتوں کے علاوہ کئی اور سورتیں بھی ایسی ہیں جن کے دو دو نام ہیں ۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل کا دوسرا نام سورۃ الاسراء ہے‘ جو اس کی پہلی آیت سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ سے لیا گیا ہے۔ عرب ممالک میں چھپنے والے قرآن مجید کے نسخوں میں ان سورتوں کے نام الاسراء‘ غافر اور فُصِّلَتْ ہی لکھے جاتے ہیں۔

        جیسا کہ قبل ازیں سورۃ الزمر کے تعارف میں بھی ذکر ہو چکا ہے‘ سورۃ الزمر اور سورۃ المؤمن کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ اس لحاظ سے ان میں ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ دونوں کے آغاز کی آیات (سورۃ الزمر کی پہلی اور سورۃ المؤمن کی دوسری آیت) ایک جیسی ہیں‘ ان میں صرف ’’الحکیم‘‘ اور ’’العلیم‘‘ کا فرق ہے --- سورۃ المؤمن ان سات سورتوں میں سے پہلی سورت ہے‘ جن کا آغاز حٰمٓ سے ہوتا ہے۔ اس نسبت سے ان سورتوں کو ’’حوامیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے سورۃ الشوریٰ کو البتہ یہ تخصیص بھی حاصل ہے کہ اس کی دوسری آیت بھی حروفِ مقطعات (عٓسٓقٓ) پر مشتمل ہے اور یوں اس کے آغاز میں پانچ حروفِ مقطعات ہیں۔ سورۃ المؤمن کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں جو اسمائے حسنیٰ آئے ہیں ان میں سے اکثر مرکب اضافی کی صورت میں ہیں۔ مثلاً غَافِرِ الذَّنْبِ‘ قَابِلِ التَّـوْبِ اور شَدِیْدِ الْعِقَابِ ۔

        سورۃ الزمر سے مکی سورتوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے ان کا مرکزی مضمون یا عمود توحید ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ ان سب سورتوں میں مکی سورتوں کے عام مضامین مثلاً آخرت‘ رسالت‘ تذکیر بآلاء اللہ اور تذکیر بایام اللہ بھی تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ علاوہ ازیں اس گروپ کی پہلی چار سورتیں (سورۃ الزمر تا سورۃ الشوریٰ) ’’توحید عملی‘‘ کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔

        ’’توحید عملی‘‘ سے متعلق تفصیلی گفتگو اس سے پہلے سورۃ الزمر کے تمہیدی کلمات میں بھی کی جا چکی ہے۔ ہمارے ہاں خطبہ ٔجمعہ میں بالعموم یہ الفاظ پڑھے جاتے ہیں: یَا اَیُّـھَا النَّاسُ وَحِّدُوا اللّٰہ! یعنی اے لوگو!توحید کو اور کامل کرو‘ اور کامل کرو اور توحید اپنے عمل میں لائو! اس لیے کہ توحید صرف ایک عقیدہ ہی نہیں یا زبان سے چند الفاظ ادا کر دینے کا ہی نام نہیں بلکہ یہ بندۂ مؤمن کی عملی زندگی کا منشور ہے۔ چنانچہ ایک بندہ ٔ مومن کو اس منشور کا ایک ایک نکتہ ہر وقت اپنے ذہن میں مستحضر رکھنے اورجہادِ زندگانی کے گھمسان میں اپنا ایک ایک قدم اس سے راہنمائی حاصل کر کے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لغوی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو باب تَفْعِیْل میں لفظ ’’توحید‘‘ بطور مصدر ’’تدریج‘‘ کے مفہوم کا حامل نظر آتا ہے۔ یعنی اس وزن پر دوسرے الفاظ مثلاً تعلیم‘ تبلیغ‘ ترویج وغیرہ کے اندر محنت اور مشقت سے کسی عمل کو مسلسل جاری رکھنے کا جو مفہوم پایا جاتا ہے لغوی طور پر وہی مفہوم لفظ توحید کے اندر بھی مضمر ہے۔ چنانچہ یوں سمجھیں کہ ’’توحید‘‘ عمر بھر کا ریاض ہے اور اس پر کاربند رہنے کے لیے محنت ِشاقہ اور ُجہد ِمسلسل کی ضرورت ہے۔

        زیر مطالعہ گروپ کی پہلی چار سورتیں (سورۃ الزمر‘ سورۃ المؤمن‘ سورۂ حٰمٓ السّجدۃ اور سورۃ الشوریٰ) توحید عملی کے مضمون کی وجہ سے آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ سورتوں کے اس نظم کے حوالے سے اس ’’بیان القرآن‘‘کے ابتدا میں تعارفِ قرآن کے تحت تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے۔ مختصراً اسے یوں سمجھ لیں کہ قرآن کی ہر آیت اپنی جگہ حکمت کا ایک موتی ہے۔ یہ موتی جب ایک لڑی (سورت) کی شکل میں پروئے جاتے ہیں تو ان کا حسن اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ جس طرح آیات کے موتیوں کو پرونے سے سورتیں بنتی ہیں اسی طرح مضامین کی مشابہت اور مماثلت کی بنا پر سورتوں کے گروپس بنتے ہیں۔ سورۃ الزمر کی آیت ۲۳ میں قرآن کو اسی لیے کِتٰـبًا مُّتَشَابِہًا کہا گیا ہے کہ اس کے مضامین اور الفاظ کی آپس میں گہری مشابہت ہے۔ البتہ جس طرح کسی خوبصورت ہار کو دیکھنے سے بظاہر اس کے موتی ہی نظر آتے ہیں اور ان موتیوں کو باہم مربوط کرنے والی ڈور نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے اسی طرح مختلف گروپس کی سورتوں کو باہم جوڑنے والے مضامین بھی عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور انہیں تلاش کرنے کے لیے محنت اور تدبر درکارہے۔ بہر حال زیر مطالعہ گروپ کی پہلی چار سورتوں کے خوبصورت ہار کوجس ڈور نے باہم مربوط کر رکھا ہے وہ توحید عملی کا مضمون ہے۔

        اب ان چار سورتوں کے مرکزی مضمون (توحید عملی) کے اندر موجود ایک خاص ترتیب اور تدریج کو بھی سمجھ لیجیے۔ ان سورتوں میں ’’توحید عملی‘‘ کے تقاضوں کو ایک فرد سے تدریجاً اجتماعیت کی طرف بڑھایا گیا ہے۔ سب سے پہلے سورۃ الزمر میں توحید عملی کے ظاہری پہلو (عبادت) پر زور دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کی عبادت کرو‘ اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ پھر سورۃ المؤمن میں توحید عملی کے داخلی پہلو یعنی دعا کے بارے میں تاکید آئی ہے۔ اس اعتبار سے ان دونوں سورتوں کو آپس میں جوڑنے والی ڈور دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا وہ حکم ہے جو دونوں سورتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ سورۃ الزمر میں  فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّـہُ الدِّیْنَ  کے الفاظ کی تکرار ہے‘ جبکہ سورۃ المؤمن میں  فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے الفاظ بار بار دہرائے گئے ہیں۔ اس طرح ان دونوں سورتوں میںتوحید عملی کو عبادت اور دعا کی صورت میں معاشرے کے پہلے درجے یعنی انفرادی سطح پر متعارف کرایا گیا ہے۔ پھر سورۂ حٰمٓ السّجدۃ میں دعوتِ توحید کی ترغیب دی گئی ہے تا کہ دعوت و تبلیغ کی بھر پور تحریک کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو توحید کا قائل کیا جائے اور ان کے دلوں میں توحید کا سبق جاگزیں کرایا جائے۔ اور جب لوگوں کی ایک معقول تعداد عملی طور پر توحید پر کاربند ہو جائے تو پھر ان لوگوں کو منظم کر کے نظام توحید کے قیام کی جدوجہد کے لیے تیار کیا جائے ۔ اس ترتیب کے حوالے سے ہم دیکھیں گے کہ سورۂ حٰمٓ السّجدۃ میں دعوتِ توحید کی بات ہو گی اور پھر سورۃ الشوریٰ میں معاشرے کے اندر اجتماعی طور پر نظامِ توحید کے قیام (اقامت ِدین) کا حوالہ آئے گا۔ 

UP
X
<>