May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 31

إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلاً كَرِيمًا

اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے، اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے

       اگلی دو آیات میں انسانی تمدن کے دو بہت اہم مسائل بیان ہو رہے ہیں‘ جو بڑے گہرے اور فلسفیانہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا مسئلہ گناہوں کے بارے میں ہے‘ جن میں کبائر اور صغائر کی تقسیم ہے۔ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک اور پھر کفر ہے۔ پھر یہ کہ جو فرائض ہیں ان کا ترک کرنا اور جو حرام چیزیں ہیں ان کا ارتکاب کبائر میں شامل ہو گا۔ ایک ہیں چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں جو انسان سے اکثر ہو جاتی ہیں‘ مثلاً آداب میں یا احکام کی جزئیات میں کوئی کوتاہی ہو گئی‘  یا بغیر کسی ارادے کے کہیں کسی کو ایسی بات کہہ بیٹھے کہ جو غیبت کے حکم میں آ گئی‘ وغیرہ وغیرہ۔اس ضمن میں صحت مندانہ رویہ یہ ہے کہ کبائر سے پورے اہتمام کے ساتھ بچا جائے کہ اس سے انسان بالکل پاک ہو جائے۔ فرائض کی پوری ادائیگی ہو‘ محرمات سے مطلق اجتناب ہو‘  اور یہ جو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں ان کے بارے میں نہ تو ایک دوسر ے پر زیادہ گرفت اور نکیر کی جائے اور نہ ہی خود زیادہ دل گرفتہ ہو اجائے‘بلکہ ان کے بارے میں توقع رکھی جائے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ ان کے بارے میں استغفار بھی کیا جائے اور یہی صغائر ہیں جو نیکیوں کے ذریعے سے خود بخود بھی ختم ہوتے رہتے ہیں ۔جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اَعضائے وضو دھوتے ہوئے ان اعضاء کے گناہ دُھل جاتے ہیں۔ رسول اللہ  کا ارشاد ہے کہ جو شخص وضو کرتا ہے تو جب وہ کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی ڈالتا ہے تو اُس کے منہ اور ناک سے اس کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں سے اُس کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے تو ا س کے ہاتھوں سے گناہ نکل جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ دھل جاتے ہیں۔ جب وہ سر کا مسح کرتا ہے تو اُس کے سر اور کانوں سے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر جب وہ پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور نماز پڑھنا اس کی نیکیوں میں اضافہ بنتا ہے۔      ُ   ّ 

            یہ صغیرہ گناہ ہیں جو نیکیوں کے اثر سے معاف ہوتے رہتے ہیں‘ ازروئے الفاظِ  قرآنی:  اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ. (ھود: 114) ’’یقینا نیکیاں برائیوں کو دُور کر دیتی ہیں‘‘۔ ان برائیوں سے مراد کبائر نہیں‘ صغائر ہیں۔ کبائر توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے (اِلاّ ما شاء اللہ!) ان کے لیے توبہ کرنی ہو گی۔ اور جو اکبر الکبائر یعنی شرک ہے اس کے بارے میں تو اس سورت میں دو مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں:  اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ  لِمَنْ یَّشَاءُ.  (آیت 48 و 116) ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ یہ بات تو کبھی معاف نہیں کرے گا کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے‘ اور اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا‘ ‘۔  لیکن ہمارے ہاں مذہب کا جو مسخ شدہ (perverted) تصور موجود ہے اس سے ایک ایسا مذہبی مزاج وجود میں آتا ہے کہ جو کبائر ہیں وہ تو ہو رہے ہیں‘ سود خوری ہو رہی ہے‘ حرام خوری ہو رہی ہے‘ مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکیر ہو رہی ہے۔ ساری گرفت ان باتوں پر ہو رہی ہے کہ تمہاری داڑھی کیوں شرعی نہیں ہے‘ اور تمہارا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے کیوں ہے؟ قرآن مجید میں اس معاملے کو تین جگہ نقل کیا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں درگزر سے بھی کام لو اور یہ کہ بہت زیادہ متفکر بھی نہ ہو۔ اس معاملے میں باہمی نسبت و تناسب پیش نظر رہنی چاہیے۔ فرمایا:

 آیت 31:   اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِــرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ: ’’اگر تم اجتناب کرتے رہو گے اُن بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا جا رہا ہے‘‘

             نُـکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ:’’تو ہم تمہاری چھوٹی برائیوں کو تم سے دور کر دیں گے‘‘

            ہم تمہیں ان سے پاک صاف کرتے رہیں گے۔ تم جو بھی نیک کام کرو گے ان کے حوالے سے تمہاری سیّئات خود بخود دھلتی رہیں گی۔

             وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا: ’’اور تمہیں داخل کریں گے بہت باعزت جگہ پر۔‘‘    ّ

            یہ مضمون سورۃ الشُوریٰ میں بھی آیا ہے اور پھر سورۃ النجم میں بھی۔ واضح رہے کہ قرآن حکیم میں اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ ضرور آتے ہیں اور یہ مضمون قرآن میں تین بار آیا ہے۔

UP
X
<>