May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 176

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

 (اے پیغمبر !) لوگ تم سے (کلالہ کا حکم) پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو کہ اﷲ تمہیں کلالہ کے بارے میں حکم بتاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس حال میں مر جائے کہ اس کی اولاد نہ ہو، اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکے میں سے آدھے کی حق دار ہوگی۔ اور اگر اس بہن کی اولاد نہ ہو (اور وہ مر جائے، اور اس کا بھائی زندہ ہو) تو وہ اس بہن کا وارث ہو گا۔ اور اگر بہنیں دوہوں تو بھائی کے ترکے سے وہ دو تہائی کی حق دار ہوں گی۔ اور اگر (مرنے والے کے) بھائی بھی ہوں اور بہنیں بھی، تو ایک مرد کو دوعورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ اﷲ تمہارے سامنے وضاحت کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو، اور اﷲ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے

            اس آخری آیت میں پھر ایک استفتاء ہے۔ آیت: 12 میں قانونِ وراثت کے ضمن میں ایک لفظ آیا تھا کلالہ‘ یعنی وہ مرد یا عورت جس کے نہ تو والدین زندہ ہوں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اگر اُس کے  بہن بھائی ہوں تو اس کی وراثت کا حکم یہ ہے۔ لیکن وہ حکم لوگوں پر واضح نہیں ہو سکا تھا۔ لہٰذا یہاں اس حکم کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ آیت: 12 کے حکم کو صرف اَخیافی بہن بھائیوں کے ساتھ مخصوص مان لینے کے بعد اس توضیحی حکم میں کلالہ کی وراثت کا ہر پہلو واضح ہو جاتا ہے۔

آیت 176:   یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُـفْتِیْکُمْ فِی الْْکَلٰلَۃِ: ’’(اے نبی) یہ آپ سے فتوی مانگ رہے ہیں۔ کہو کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دے رہا ہے۔‘‘

             اِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہ وَلَـدٌ وَّلَــہٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ: ’’ اگر کوئی شخص فوت ہو گیا اور اس کی کوئی اولاد نہیں (اور نہ ماں باپ ہیں) اور اس کی صرف ایک بہن ہے تو اس کے لیے اس کے ترکے میں سے نصف ہے۔‘‘

            ایسی صورت میں اس کی بہن ایسے ہی ہے جیسے ایک بیٹی ہو تو اسے ترکے میں سے آدھا حصہ ملے گا۔

             وَہُوَ یَرِثُہَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَـدٌ: ’’اور وہ مرد (بھائی) اس (بہن) کا مکمل وارث ہو گا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہیں۔‘‘

            یعنی اگر کلالہ عورت تھی جس کی کوئی اولاد نہیں‘ کوئی والدین نہیں تو اس کا وارث اس کا بھائی بن جائے گا‘ اس کی پوری وراثت اس کے بھائی کو چلی جائے گی۔

             فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَـیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ:  ’’پھر اگر دو (یا دو سے زیادہ) بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حق دار ہوں گی۔‘‘

             وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً  رِّجَالاً وَّنِسَآءًا فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـیَیْنِ:  ’’اور اگر کئی بہن بھائی ہوں تو ایک مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہو گا۔‘‘

            یعنی بھائی کو بہن سے دوگنا ملے گا۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ آیت: 12 میں جو حکم دیا گیا تھا وہ اَخیافی بہن بھائیوں کے بارے میں تھا۔ یعنی ایسے بہن بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ علیحدہ علیحدہ ہوں۔ اُس زمانے کے عرب معاشرے میں تعد ّدِ ازواج کے عام رواج کی وجہ سے ایسے مسائل معمولات کا حصہ تھے۔ باقی عینی یاعلاتی بہن بھائیوں (جن کے ماں اور باپ ایک ہی ہوں یا مائیں الگ الگ ہوں اور باپ ایک ہی ہو) کا وہی عام قانون ہو گا جو بیٹے اور بیٹی کا ہے۔ جس نسبت سے بیٹے اور بیٹی میں وراثت تقسیم ہوتی ہے ایسے ہی ان بہن بھائیوں میں ہو گی۔

             یُـبَـیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ:  ’’اللہ واضح کیے دیتا ہے تمہارے لیے مبادا کہ تم گمراہ ہو جاؤ‘ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘

            تعارفِ قرآن کے دوران میں نے بتایا تھا کہ قرآن حکیم کی ایک تقسیم سات احزاب یا منزلوں کی ہے۔ اس اعتبار سے سورۃ النساء پر پہلی منزل ختم ہو گئی ہے۔  فالحمد للّٰہ علی ذٰلک!

UP
X
<>