May 17, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 171

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِي دِينِكُمْ وَلاَ تَقُولُواْ عَلَى اللَّهِ إِلاَّ الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلاَ تَقُولُواْ ثَلاَثَةٌ انتَهُواْ خَيْرًا لَّكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَات وَمَا فِي الأَرْضِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلاً 

اے اہلِ کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو، اور اﷲ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو محض اﷲ کے رسول تھے، اور اﷲ کا ایک کلمہ تھا جو اس نے مریم تک پہنچا یا، اور ایک روح تھی جو اسی کی طرف سے (پیدا ہوئی) تھی، لہٰذا اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور یہ مت کہو کہ (خدا) تین ہیں ۔ اس بات سے با ز آجاؤ، کہ اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ اﷲ تو ایک ہی معبود ہے، وہ اس بات سے بالکل پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، اور سب کی دیکھ بھال کیلئے اﷲ کافی ہے

آیت 171:    یٰٓــاَہْلَ الْـکِتٰبِ لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلاَّ الْحَقَّ:  ’’اے اہل ِکتاب‘ اپنے دین میں غُلو (مبالغہ) نہ کرو‘ اور اللہ کی طرف کوئی شے منسوب نہ کرو سوائے اس کے جو حق ہو۔‘‘

            تم آپس کے معاملات میں تو جھوٹ بولتے ہی ہو‘ مگر اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا‘ جھوٹ بول کر اللہ پر اسے تھوپنا کہ اللہ کا یہ حکم ہے‘  اللہ نے یوں کہا ہے‘  یہ تو وہی بات ہوئی: بازی بازی با ریش ِبا با ہم بازی!

             اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: ’’ دیکھو مسیح عیسٰی   ابن ِمریم تو بس اللہ کے رسول تھے‘‘

            وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ایک رسول   تھے اور بس! اُلوہیّت میں ان کا کوئی حصّہ نہیں ہے‘  وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں۔

             وَکَلِمَتُہ اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ:  ’’اور وہ اُس کا ایک کلمہ تھے‘ جو اُس نے اِلقا کیا مریم  پر اور ایک روح تھے اُس کی طرف سے‘‘

            یعنی حضرت مریم کے رحم میں جو حمل ہوا تھا وہ اللہ کے کلمہ کُن کے طفیل ہوا۔ بچے کی پیدائش کے طبعی عمل میں ایک حصہ باپ کا ہوتا ہے اور ایک ماں کا۔ اب حضرت مسیح  کی ولادت میں ماں کا حصہ تو پورا موجود ہے۔ حضرت مریم  کو حمل ہوا‘ نو مہینے آپ  رحم میں رہے‘ لیکن یہاں باپ والا حصہ بالکل نہیں ہے اور باپ کے بغیر ہی آپ  کی پیدائش ممکن ہوئی۔ ایسے معاملات میں جہاں اللہ کی مشیّت سے ایک لگے بندھے طبعی عمل میں سے اگر کوئی کڑی اپنی جگہ سے ہٹائی جاتی ہے تو وہاں پر اللہ کا مخصوص امر کلمہ ٔکُن  کی صورت میں کفایت کرتا ہے۔ یہاں پر اللہ کے ’’کلمہ‘‘ کا یہی مفہوم ہے۔

             جہا ں تک حضرت مسیح  کو ’’رُوْحٌ مِّنْہُ‘‘ قرار دینے کا تعلق ہے تو اگرچہ سب انسانوں کی روح اللہ ہی کی طرف سے ہے‘ لیکن تمام روحیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ بعض روحوں کے بڑے بڑے اونچے مراتب ہوتے ہیں۔ ذرا تصور کریں روحِ محمدی کی شان اور عظمت کیا ہو گی! روحِ محمدی کو عام طور پر ہمارے علماء ’’نورِ محمدی‘‘ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ روح ایک نورانی شے ہے۔ ملائکہ بھی نور سے پیدا ہوئے ہیں اور انسانی ارواح بھی نور سے پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن سب انسانوں کی ارواح برابر نہیں ہیں۔ حضور کی روح کی اپنی ایک شا ن ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ  کی روح کی اپنی ایک شان ہے۔

             فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہ وَلاَ تَقُوْلُــوْا ثَلٰـثَۃٌ:  ’’پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر‘ اور تثلیث (تین خداؤں) کا دعویٰ مت کرو۔‘‘

             اِنْتَہُوْا خَیْرًا لَّــکُمْ:  ’’باز آ جاؤ‘ اسی میں تمہاری بہتری (خیریت) ہے۔‘‘

            یہ مت کہو کہ الوہیت تین میں ہے۔ ایک میں تین اور تین میں ایک کا عقیدہ مت گھڑو۔

             اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰـــہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٓ اَنْ یَّــکُوْنَ لَــہ وَلَـدٌ: ’’جان لو کہ اللہ تو بس ایک ہی الٰہ ِواحد ہے‘ وہ اس سے پاک ہے کہ اُس کا کوئی بیٹا ہو۔‘‘

             لَــہ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً: ’’آسمانوں اورزمین میں جو کچھ ہے سب کچھ اُسی کا ہے‘ اور اللہ کافی ہے بطور ِکارساز۔‘‘

UP
X
<>