May 17, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 69

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا

اے ایمان والو ! اُن لوگون کی طرح نہ بن جانا جنہوں نے موسیٰ کو ستا یا تھا، پھر اﷲ نے اُن کو اُن باتوں سے بری کر دیا جو ان لوگوں نے بنائی تھیں ، اور وہ اﷲ کے نزدیک بڑے رُتبے والے تھے

آیت ۶۹   یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی: ’’اے اہل ِایمان! تم اُن لوگوں کی مانند نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیت دی تھی‘‘

        فَـبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا  وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْہًا: ’’تو اللہ نے اُس کو بری ثابت کر دیا اس بات سے جو انہوں نے کہی تھی، اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والا تھا۔‘‘

        حضرت موسیٰ کو اپنی قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کئی طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ سورۃ الصف میں آپؑ کے وہ الفاظ نقل ہوئے ہیں جو آپؑ نے اپنی قوم کے طرزِعمل پر شکوہ کرتے ہوئے فرمائے تھے: (یٰـقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ) (آیت۵) ’’اے میری قوم! تم مجھے کیوں اذیت دیتے ہو درانحالیکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں !‘‘ حضرت موسیٰ کو اپنی قوم کی طرف سے سب سے بڑی اذیت کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا جب آپؑ نے قوم کو اللہ کے راستے میں قتال کرنے کا حکم دیا تو سوائے دو اشخاص کے پوری قوم نے انکار کر دیا۔ قوم کے اس طرز عمل پر حضرت موسیٰ نے جو کوفت اور اذیت محسوس کی اس کا اندازہ اس دعا سے کیا جا سکتا ہے جو آپؑ نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے کی: (قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ) (المائدۃ) ’’انہوں ؑ نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! مجھے تو اختیار نہیں ہے سوائے اپنی جان کے اور اپنے بھائی (ہارونؑ کی جان) کے، تو اب تفریق کردے ہمارے اوران ناہنجار لوگوں کے درمیان۔‘‘

        اس کے علاوہ آپؑ پر ذاتی نوعیت کا ایک الزام لگا کر بھی آپؑ کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔ اس حوالے سے احادیث میں ایک واقعہ بہت تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ کا ُلب ّلباب یہ ہے کہ اس زمانے میں عام طور پر مرداپنے ستر کو چھپانے کا خاص اہتمام نہیں کرتے تھے اور سر ِعام برہنہ نہانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس کے برعکس حضرت موسیٰ اس بارے میں غیر معمولی طور پر احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اس پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آپؑ جسمانی طور پر کسی عیب یا مرض میں مبتلا ہیں جس کو چھپانے کے لیے آپؑ اس قدر شرم و حیا کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ترکیب کے ذریعے لوگوں پر واضح کر دیا کہ ان کا یہ الزام جھوٹا اور بے بنیاد تھا۔

        سورۃ النور میں ہم حضرت عائشہ پر منافقین کی طرف سے بہتان تراشی کا وہ واقعہ بھی پڑھ چکے ہیں جو حضور  کے لیے سخت اذیت کا باعث بنا تھا۔ چنانچہ یہاں تمام افرادِ اُمت کو خبردار کیا جارہا ہے کہ دیکھو! تم بھی کہیں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو اپنے نبی حضرت موسیٰ کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا کرتے تھے۔ تمہارا کوئی عمل یا قول ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے رسول اللہ  کو تکلیف پہنچے۔

UP
X
<>