May 3, 2024

قرآن کریم > السجدة >sorah 32 ayat 5

يُدَبِّرُ الأَمْرَ مِنَ السَّمَاء إِلَى الأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کا انتظام خود کرتا ہے، پھر وہ کام ایک ایسے دن میں اُس کے پاس اُوپر پہنچ جاتا ہے جس کی مقدار تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار سال ہوتی ہے

 آیت ۵    یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ: ’’وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف‘‘

      کائنات کے انتظامی امور کی منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ کے ہاں ہزار سال کے حساب سے کی جاتی ہے، جیسا کہ اگلے جملے میں واضح کیا جا رہا ہے کہ اللہ کا ایک دن ہمارے ہزار سال کے عرصے کے برابر ہے۔ اس منصوبہ بندی کے اندر ’’لیلۃ القدر‘‘ گویا انسانی کیلنڈر کے حساب سے متعلقہ سال کے بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سالانہ بجٹ میں فیصلے کیے جاتے ہیں کہ متعلقہ سال کے اندر دنیا میں انسانوں کے لیے کون کون سے امور کس کس طرح نمٹائے جائیں گے۔ انہی فیصلوں کی تعمیل و تنفیذکے لیے آسمانوں سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جس کا ذکر سورۃ القدر میں آیا ہے۔

      ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ: ’’پھر وہ (امر) چڑھتا ہے اُس کی طرف‘‘

      پھر فرشتے ان احکام کی تعمیل سے متعلق اپنی اپنی رپورٹس اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں ۔

      فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ: ’’ (یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے) ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس ہے۔‘‘

      یہ مضمون اپنی اہمیت کے پیش نظر قرآن حکیم میں دو دفعہ آیا ہے۔ چنانچہ سورۃ الحج میں کفار کی طرف سے عذاب کی جلدی مچانے کے جوا ب میں یوں وضاحت فرمائی گئی: (وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ) ’’اور یقینا ایک دن آپؐ کے رب کے نزدیک ایک ہزار برس کی طرح ہے جیسے تم لوگ گنتی کرتے ہو‘‘۔ جبکہ یہاں اللہ تعالیٰ کی ’’تدبیر امر‘‘ کے سلسلے میں ایک بنیادی اصول کے طور پر بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں جو فیصلے ہوتے ہیں ان کی منصوبہ بندی ایک ہزار سال کے عرصے کے مطابق کی جاتی ہے۔

UP
X
<>