May 7, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 6

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اﷲ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں ، تاکہ اُن کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اﷲ کے راستے سے بھٹکائیں ، اور اُس کا مذاق اُڑائیں ۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا

آیت ۶   وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَہَا ہُزُوًا: ’’ اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کھیل تماشے کی چیزیں خریدتے ہیں تا کہ گمراہ کریں (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے بغیر علم کے، اور اس کو ہنسی بنا لیں ۔‘‘

      یہاں خصوصی طور پر نضر بن حار ث کے کردار کی طرف اشارہ ہے جو روسائے قریش میں سے تھا۔ دراصل نزولِ قرآن کے وقت عرب کے معاشرہ میں شعر و شاعری کا بہت چرچا تھا۔ ان کے عوام تک میں شعر کا ذوق پایا جاتا تھا اور اچھی شاعری اور اچھے شاعروں کی ہر کوئی قدر کرتا تھا۔ ایسے ماحول میں قرآن کریم جیسے کلام نے گویا اچانک کھلبلی مچا دی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس کلام کے گرویدہ ہونے لگے تھے، اس کی فصاحت و بلاغت انہیں مسحور کیے دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ جو شخص قرآن کو ایک بار سن لیتا وہ اسے بار بار سننا چاہتا۔ یہ صورتِ حال مشرکین کے لیے بہت تشویش ناک تھی۔ وہ ہر قیمت پر لوگوں کو اس کلام سے دور رکھنا چاہتے تھے اور دن رات اس کی اس ’’قوتِ تسخیر‘‘ کا توڑ ڈھونڈنے کی فکر میں تھے۔ چنانچہ نضر بن حارث نے اپنے فہم کے مطابق اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ وہ شام سے ناچ گانے والی ایک خوبصورت لونڈی خرید لایااور اس کی مدد سے مکہ میں اس نے راتوں کو ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرانا شروع کر دیں ۔ بظاہر یہ ترکیب بہت کامیاب اور مؤثر تھی کہ لوگ ساری ساری رات ناچ گانے سے لطف اندوز ہوں ، اس کے بعد دن کے بیشتر اوقات میں وہ سوتے رہیں اور اس طرح انہیں قرآن سننے یا اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی کبھی فرصت ہی میسر نہ آئے۔

      یہاں ضمنی طور پر اس صورت حال کا تقابل آج کے اپنے معاشرے سے بھی کر لیں ۔ مکہ میں تو ایک نضربن حارث تھا جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا، لیکن آج ہمارے ہاں سپورٹس میچز، میوزیکل کنسرٹس (concerts) اور بے ہودہ فلموں کی صورت میں لہو و لعب اور فحاشی و عریانی کا سیلابِ بلا گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے جو پورے معاشرے کو اپنی رو میں بہائے چلا جا رہا ہے۔ فحاشی و عریانی کے تعفن ّکا یہ زہر ہمارے نوجوانوں کی رگوں میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ بحیثیت مجموعی ان کے قلوب و اَذہان میں موت یا آخرت کی فکر سے متعلق کوئی ترجیح کہیں نظر ہی نہیں آتی۔ ان میں سے کسی کو (الّا ما شا ء اللہ) اب یہ سوچنے کی فرصت ہی میسر نہیں کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کس طرف جا رہاہے؟ اس کی زندگی کا مقصد و مآل کیا ہے؟ اس کے ملک کے حالات کس رُخ پر جا رہے ہیں اور اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟ اس سب کچھ کے مقابلے میں ذہن ِاقبالؔ کے ابلیس کی سوچ تو گویا بالکل ہی بے ضرر تھی جس نے بقولِ اقبال ؔمسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے کارندوں کو یہ سبق پڑھایا تھا: ؎

       مست رکھو ذکر و فکر ِصبح گاہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!

گویا اُس دور میں ابلیس کو معلوم تھا کہ مسلمان کسی قیمت پر بھی ’’عریاں الحاد‘‘ کے جال میں پھنسنے والا نہیں ۔ اس لیے وہ کھل کر سامنے آنے کی بجائے ’’مزاجِ خانقاہی‘‘ کا سہارا لے کر مسلمانوں کو ’’شرعِ پیغمبر‘‘ سے برگشتہ کرنے کا سوچتا تھا۔ مگر آج صورت حال یکسر مختلف ہے۔ آج ابلیس کی ’’جدوجہد‘‘ کی کرامت سے ’’نوجواں مسلم‘‘ اس قدر ’’جدت پسند‘‘ ہو چکا ہے کہ فحاشی و عریانی کے مظاہر کو وہ جدید فیشن اور نئی ترقی کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کے سٹیج پر ابلیسیت کوئی بہروپ بدلنے کا تکلف ّکیے بغیر اپنی اصل شکل میں برہنہ محو ِرقص ہے اور ہماری نئی نسل کے نوجوان بغیر کسی تردّد کے اپنی تمام ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر اس تماشہ کو دیکھنے میں رات دن مگن ہیں ۔ گویا یہی ان کی زندگی ہے اور یہی زندگی کا مقصد و مآل!

        اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ: ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اہانت آمیز عذاب ہے۔‘‘ 

UP
X
<>