May 19, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 191

 الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 

جو اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اﷲ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) ’’ اے ہمارے پروردگار ! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں ۔ پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالیجئے

 آیت 191:   الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ:  ’’جو اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں‘ کھڑے بھی‘ بیٹھے بھی اور اپنے پہلوئوں پر بھی‘‘

             وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ:  ’’اور مزید غور و فکر کرتے رہتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں۔‘‘

            اس غور و فکر سے وہ ایک دوسرے نتیجے پر پہنچتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں:

             رَبَّـنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا:  ’’اے ہمارے ربّ! تو نے یہ سب کچھ بے مقصد توپیدا نہیں کیا ہے۔‘‘

            اور پھر ان کا ذہن اپنی طرف منتقل ہوتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ میں کس لیے پیدا کیا گیا ہوں؟ کیا میری زندگی بس یہی ہے کہ کھاؤ پیو‘ اولاد پیدا کرو اور دنیا سے رخصت ہو جائو؟ معلوم ہوا کہ نہیں ‘کوئی خلا ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجے نکلنے چاہئیں‘ انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ ملنا چاہیے‘ جو اس دنیا میں اکثر و بیشتر نہیں ملتا۔ دنیا میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نیکوکار فاقوں سے رہتے ہیں اور بدکار عیش کرتے ہیں۔ چنانچہ کوئی اور زندگی ہونی چاہیے‘ کوئی اور دنیا ہونی چاہیے جس میں اچھے برے اعمال کا بھرپور بدلہ مل جائے‘ مکافاتِ عمل ہو۔ لہٰذا وہ کہہ اٹھتے ہیں:

             سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ:  ’’تو پاک ہے (اس سے کہ کوئی عبث کام کرے)‘ پس تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا!‘‘

            تو نے یقینا ایک دوسری دنیا تیار کر رکھی ہے‘ جس میں جزا وسزا کے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی!

UP
X
<>