May 3, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 64

وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

اور یہ دُنیوی کھیل کود کے سوا کچھ بھی نہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ دارِ آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے !

آیت ۶۴   وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ: ’’اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشے کے سواکچھ نہیں ۔‘‘

      دیکھو مسلمانو! یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل جیسی ہے۔ اس کی حیثیت تمہارے ایک سٹیج ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح ڈرامے کا بادشاہ حقیقی بادشاہ نہیں اور سٹیج پر فقیر کا کردار ادا کرنے والا شخص سچ مچ کا فقیر نہیں اسی طرح تمہاری اس زندگی کے تمام کردار بھی حقیقی نہیں ۔ حقیقی کردار تو اس سٹیج سے باہر جا کر (موت کے بعد) سامنے آئیں گے۔ عین ممکن ہے یہاں کے شہنشاہ کو وہاں مجرم کی حیثیت میں اٹھایا جائے اور جو شخص یہاں زندگی بھر لوگوں کا معتوب و مغضوب رہا وہاں اسے خلعت ِفاخرہ سے نوازا جائے۔ چنانچہ تم خاطر جمع رکھو! نہ تو یہاں کا عیش اصل عیش ہے اور نہ آج کے مصائب حقیقی مصائب ہیں ۔ یہ سب کچھ وقتی، عارضی اور فانی ہے۔

      وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ  لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ: ’’اور آخرت کا گھر ہی یقینا اصل زندگی ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘

      اس مضمون کا مفہوم اپنے دل میں اُتارنے کے لیے آخری جملے کو اپنے اوپر طاری کر کے یوں کہیں :کاش کہ ہمیں معلوم ہوتا! یہاں یہ اہم نکتہ بھی ذہن نشین کرنے کی کوشش کیجیے کہ بعث بعد الموت کا صرف مان لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں ایسے پختہ یقین کی ضرورت ہے جس کے تحت انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ حقیقت واقعی جاگزیں ہو جائے کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔ آخرت کی زندگی کی حقیقت واضح کرنے کے لیے میں نے اکثر مواقع پر ایک کتاب کی تشبیہہ بیان کی ہے، جس کے آغاز میں ایک دیباچہ اور آخر میں ایک ضمیمہ ہوتا ہے۔ عام طورپر ہم دنیادار یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا کی زندگی اصل کتاب ہے جبکہ آخرت کی زندگی اس کتاب کا ضمیمہ ہے، جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی محض ایک دیباچہ ہے اس کتاب کا جو موت کے بعد کھلنے والی ہے، بلکہ اگر نسبت تناسب کے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ تشبیہہ بھی درست قرار نہیں پاتی۔ درحقیقت دنیا کی زندگی محدود ہے جبکہ آخرت کی زندگی لا محدود ہے اور حق یہ ہے کہ محدود اور لا محدود میں باہم کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی۔ بہر حال ہمیں اپنے محدود ذہن کو سمجھانے کے لیے اس مثال کا سہارا لینے میں کوئی حرج نہیں ۔

      اس کے بعد اب خطاب کا رخ پھر مشرکین ِمکہ ّکی طر ف مڑ گیا ہے۔

UP
X
<>