April 26, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 10

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِن جَاء نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ 

اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ کہہ دیتے ہیں کہ : ’’ ہم ایمان لے آئے ہیں‘‘ پھر جب اُن کو اﷲ کے راستے میں کوئی تکلیف پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی پہنچائی ہوئی تکلیف کو ایسا سمجھتے ہیں جیسا اﷲ کا عذاب۔ اور اگر کبھی تمہارے پروردگار کی طرف سے کوئی مدد ان (مسلمانوں ) کے پاس آگئی ہے تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ : ’’ ہم تو تمہارے ساتھ تھے۔‘‘ بھلا کیا اﷲ کو وہ باتیں اچھی طرح معلوم نہیں ہیں جو سارے دُنیا جہان کے لوگوں کے سینوں میں چھپی ہیں؟

آیت ۱۰   وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ: ’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر، مگر جب انہیں اللہ کی راہ میں ایذا پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی ایذا رسانی کو اللہ کے عذاب کی مانند سمجھ لیتے ہیں ۔‘‘

      یعنی لوگوں کی طرف سے ڈالی گئی آزمائش سے ایسے گھبرا جاتے ہیں جیسے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو گیا ہو۔ یہاں یہ نکتہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ آیت مکہ میں اُس وقت نازل ہوئی جب اسلام میں منافقت کا شائبہ تک نہ تھا، بلکہ یہ وہ وقت تھا جب کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے ہر شخص پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں جو کوئی بھی اسلام قبول کرتا تھا اس کے ایمان میں کسی شک و شبہ کا امکان نہیں تھا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ّہے کہ سب لوگوں کی طبیعتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور جذبے، بہادری، استقامت وغیرہ میں سب انسان برابر نہیں ہوتے۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں اسی حوالے سے ایک ایسے کردار کا ذکر ہو رہا ہے جو ایمان تو پورے خلوص سے لایا ہے مگر اس راستے کی مشکلات اور آزمائشوں کو جھیلنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہے۔

      وَلَئِنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ: ’’اور (اے نبی!) اگر آپ کے رب کی طرف سے مدد آ جائے‘‘

      لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ: ’’یہ ضرور کہیں گے کہ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہی تو تھے۔‘‘

      جب صورتِ حال تبدیل ہو جائے گی اور دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگادینے والوں کو اللہ تعالیٰ فتح و نصرت سے ہم کنارکرے گا تو اس کردار کے لوگ فتح کے ثمرات میں حصہ دار بننے کے لیے آموجود ہوں گے کہ ہم تو دل سے آپ ہی کے ساتھ تھے۔ گویا یہ وہی کردار ہے جس کا ذکر سورۃ البقرۃ کے آغاز میں بھی ہوا ہے اور سورۃ الحج کی اس آیت میں اس کی نفسیاتی کیفیت کو مزید واضح کر دیا گیا ہے: (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ  اطْمَاَنَّ بِہٖ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ  انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ) (الحج) ’’اور لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے پر رہ کر۔ پھراگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو اس کے ساتھ مطمئن رہے، اور اگر اسے کوئی آزمائش آ جائے تو منہ کے بل الٹا پھر جائے۔ وہ دنیا میں بھی خسارے میں رہا اور آخرت میں بھی۔ یہی ہے واضح خسارہ۔‘‘

      اَوَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ:’’تو کیا اللہ بخوبی واقف نہیں ہے اس سے جو جہان والوں کے سینوں میں مضمر ہے؟‘‘

UP
X
<>