May 19, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 79

فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ

پھر (ایک دن) وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی آن بان کے ساتھ نکلا۔ جولوگ دُنیوی زندگی کے طلب گار تھے، وہ کہنے لگے : ’’ اے کاش ! ہمارے پاس بھی وہ چیزیں ہوتیں جو قارون کو عطا کی گئی ہیں ۔ یقینا وہ بڑے نصیبوں والا ہے۔‘‘

آیت ۷۹   فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ: ’’پھر (ایک دن) وہ نکلا اپنی قوم کے سامنے اپنے پورے ٹھاٹھ باٹھ میں ۔‘‘

      اپنی قوم پر رعب جمانے کے لیے وہ اپنے َخدم و حشم کے ساتھ اپنی دولت اور آرائش و زیبائش کا اظہار کرتے ہوئے نکلا۔ چنانچہ اس کی شان و شوکت کودیکھ کر:

      قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ: ’’کہا ان لوگوں نے جو خواہش مند تھے دنیا ہی کی زندگی کے، کہ کاش یہ سب کچھ ہمارے لیے بھی ہوتا جو قارون کو ملا ہے‘‘

      وہ لوگ جو دُنیوی زندگی ہی کے طالب تھے، اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر اندر ہی اندر اپنی محرومیوں پر پچھتاتے اور اس کی خوش نصیبی کی داد دیتے رہے کہ:

      اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ: ’’یقینا وہ بہت بڑے نصیب والا ہے۔‘‘

      دنیا پرست اور ظاہر بین لوگوں کی نظر میں تو کسی شخص کی کامیابی اور خوش بختی کا معیار یہی ہے کہ اس کے پاس کس قدردولت ہے۔ یہ دولت اس نے کہاں سے حاصل کی ہے اور کیسے حاصل کی ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ 

UP
X
<>