May 19, 2024

قرآن کریم > الفرقان >sorah 25 ayat 29

لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلإِنسَانِ خَذُولاً

میرے پاس نصیحت آچکی تھی، مگر اس (دوست) نے مجھے اُس سے بھٹکا دیا۔‘‘ اور شیطان تو ہے ہی ایسا کہ وقت پڑنے پر اِنسان کو بے کس چھوڑ جاتا ہے

آیت ۲۹   لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَنِیْ: ’’اُس نے مجھے گمراہ کر کے ’ذکر، سے برگشتہ کردیا اس کے بعد جبکہ وہ میرے پاس پہنچ گیا تھا۔‘‘

      ذکر کے پہنچ جانے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ مجھے اللہ کے رسول نے پوری بات سنادی تھی اور دوسرے یہ کہ میری زندگی کے فلاں لمحے میں پیغامِ حق میرے دل کے تاروں کو چھیڑنے لگا تھااور اس کی حقانیت میرے دل کی گہرائیوں میں اترنے لگی تھی۔ جیسے سورۃ النساء میں فرمایا گیا: (وَقُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً بَلِیْغًا) کہ اے نبی! ان سے ایسی بات کہیے جو ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ چنانچہ مذکورہ شخص اپنی ایسی ہی کیفیت کا اعتراف کرے گا کہ اس نصیحت، یاد دہانی اور ہدایت کا ابلاغ میرے دل تک ہو چکا تھا، لیکن افسوس کہ میرے ساتھی نے مجھے پھر سے گمراہ کر دیا۔

      وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا: ’’اور شیطان تو انسان کو آخر دغا دینے والا ہے۔‘‘

      شیطان انسان کے ساتھ بڑا ہی بے وفائی کرنے والا اور آخر کار اسے اکیلا چھوڑ جانے والا ہے۔

UP
X
<>