May 19, 2024

قرآن کریم > الفرقان >sorah 25 ayat 23

وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاء مَّنثُورًا 

اور انہوں نے (دنیا میں ) جو عمل کئے ہیں ، ہم اُن کا فیصلہ کرنے پر آئیں گے تو اُنہیں فضا میں بکھرے ہوئے گردو غبار (کی طرح بے قیمت) بنادیں گے

آیت ۲۳   وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَـآءً مَّنْثُوْرًا: ’’اور ہم آگے بڑھیں گے ان کے ہر عمل کی طرف جو انہوں نے کیا ہو گا اور کر دیں گے اسے اڑتا ہوا غبار۔‘‘

      یہ بہت عبرتناک منظر کی تصویر ہے۔ یہ دراصل ایسی نیکیوں کا ذکر ہے جن کی بنیاد ایمانِ حقیقی پر نہیں رکھی گئی تھی۔ آخرت میں ایسے اعمال کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی فضول اور قابل حقارت چیز کی سی ہو گی جسے کوئی دیکھتے ہی فٹ بال کی طرح ٹھوکر مار کر ہوا میں اچھال دے۔ یہ ان دنیا پرست اور ریاکار لوگوں کے انجام کا نقشہ ہے جو ظاہر کی نیکیوں کے انبار لے کر میدان محشر میں آئیں گے۔ دنیا میں انہوں نے خیراتیں بانٹی تھیں، یتیم خانے کھولے تھے، ہسپتال بنائے تھے، مسجدیں تعمیر کرائی تھیں، مدارس کی سرپرستی کی تھی، حج و عمرے کیے تھے، مگر ان اعمال کو سرانجام دیتے ہوئے اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کے اجر و ثواب کو کہیں بھی مدّ نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ کہیں عزت و شہرت حاصل کرنے کا جذبہ نیکی کا محرک بنا تھا تو کہیں پارسائی و پرہیز گاری کا سکہ جمانے کی خواہش نے عبادات کا معمول اپنایا تھا۔ کبھی الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی نے خدمت خلق کا لبادہ اوڑھا تھا تو کبھی کاروباری ساکھ کو بہتر بنانے کے لالچ نے متقیانہ روپ دھارا تھا۔ غرض ہر نیکی کے پیچھے کوئی نہ کوئی دُنیوی مفاد کار فرما تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو علیمٌ بذاتِ الصدور ہے، اس کے نزدیک ایسی کسی نیکی کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں۔ چنانچہ ایسے بد قسمت لوگوں کی نیکیوں کے انبار اور اعمالِ صالحہ کے پہاڑ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں گرد و غبار کے ذرّات کی طرح تحلیل کر دیا جائے گا۔

      یہ مضمون یہاں تیسری بار آیا ہے۔ سورۂ ابراہیم میں ایک تمثیل کے ذریعے ایسے اعمال کی بے بضاعتی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : (مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْئٍ  ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ)  ’’ مثال ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ (ایسی ہے) کہ ان کے اعمال ہوں راکھ کی مانند، جس پر زور دار ہوا چلے آندھی کے دن۔ انہیں کچھ قدرت نہیں ہو گی ان (اعمال) میں سے کسی پر بھی جو انہوں نے کمائے ہوں گے۔ یہی تو ہے دور کی گمراہی‘‘۔ پھر سورۃ ّالنور ُمیں بغیر ایمان کی نیکیوں کی حقیقت ایک دوسری تمثیل میں یوں واضح کی گئی ہے : (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءً حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہُ فَوَفّٰـہُ حِسَابَہُ وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ) ’’اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے سراب کسی چٹیل میدان میں، پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پاس آیا تو اس نے اسے کچھ نہ پایا، البتہ اس نے اس کے پاس اللہ کو پایا، تو اُس نے پورا پورا چکا دیا اسے اس کا حساب۔ اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘

UP
X
<>