May 2, 2024

قرآن کریم > المؤمنون >surah 23 ayat 115

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ

بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمہیں یونہی بے مقصد پیدا کر دیا، اور تمہیں واپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا؟‘‘

 آیت ۱۱۵: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ: «کیا تم نے سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا تھا اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹا ئے نہیں جاؤ گے؟»

            گزشتہ آیات کے سیاق و سباق میں اس آیت کا ترجمہ صیغہ ماضی میں ہو گا اور اس مفہوم میں اس کے مخاطب وہی جہنمی لوگ ہوں گے جن کا ذکر پیچھے سے چلا آ رہا ہے۔ اور اگر اسے گزشتہ سلسلہ کلام سے علیحدہ پڑھا جائے تو اس کا ترجمہ صیغہ حال میں کیا جائے گا اور پھر اس کا مخاطب ہر پڑھنے سننے والا اور دنیا کے ہر زمانے کا ہر انسان ہو گا کہ اے لوگو! کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بے مقصد اور بیکار پیدا کیا ہے اور تمہیں ہمارے پاس واپس آ کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب نہیں دینا ہے؟

            عقلی اور منطقی طور پر یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آخرت کے تصور کے بغیر انسانی تخلیق کا مقصد سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اگر انسان عام حیوانات جیسا حیوان ہوتا تو پھر واقعی حیات بعد الممات اور آخرت کی کوئی ضرورت نہیں تھی، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حیوانات کے برعکس انسان کے اندر فطری طور پر اخلاقی حس اور نیکی و بدی کی تمیز (moral sense) پیدا کی گئی ہے۔ اس اخلاقی حس کے نتیجے میں انسانی سطح پر جو اخلاقی اقدار (moral values) وجود میں آئی ہیں وہ کسی قوم، کسی علاقے یا زمانے تک محدود نہیں، بلکہ مستقل permanent)) اور آفاقی (universal) ہیں۔ چنانچہ «گندم از گندم بروید جو ز جو» (گندم سے گندم اُگتی ہے اور جو سے جو) کے اصول کے مطابق اچھائی کا نتیجہ اچھا نکلنا چاہیے اور برائی کا برا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اور ہمیشہ لازمی طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ عام طور پر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ صورت حال منطقی طور پر تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا وجود میں آئے، جہاں ہر انسان کی موجودہ زندگی کے ایک ایک فعل اور ایک ایک عمل کا احتساب کر کے مصدقہ آفاقی اصولوں کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا اہتمام ہو۔ یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید مختلف مواقع پر ایمان بالآخرت کے لیے بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ بہر حال ایک ذی شعور انسان بالآخر اس منطقی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے اور بے اختیار پکار اٹھتا ہے:  رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ: (آل عمران)۔ «اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے!» 

UP
X
<>