May 19, 2024

قرآن کریم > الأنبياء >surah 21 ayat 22

لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ

اگر آسمان اور زمین میں اﷲ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تودونوں درہم برہم ہوجاتے۔ لہٰذا عرش کا مالک اﷲ اُن باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں

 آیت ۲۲:  لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا:   «اگر ان دونوں (زمین و آسمان) کے اندر اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہوتے تو لازماً یہ دونوں فساد سے بھر جاتے۔»

            اس کائنات کا نظم و ضبط زبانِ حال سے گواہی دے رہا ہے کہ یہ ایک وحدت (Unitary System) ہے۔ اس کا مدبر ومنتظم ایک ہی ہے اور اس کے انتظام میں ایک سے زیادہ آراء کی تعمیل و تنفیذ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا: قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہُٓ اٰلِہَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لاَّبْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاً.   «آپ (ان سے) کہیے کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں تب تو وہ ضرورتلاش کرتے صاحب ِعرش کی طرف کوئی راستہ»۔ اس سے یہ دلیل بھی نکلتی ہے کہ کوئی بھی ادارہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا سربراہ ایک ہی ہونا چاہیے اور اگر کسی ادارے کے ایک سے زیادہ سربراہ ہوں گے تو اس کا نظم و نسق تباہ ہو جائے گا۔ یہی مثال مرد کی قوامیت کی دلیل بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ خاندان جیسا اہم اور حساس ادارہ ایک جیسے اختیارات کے حامل دو سربراہوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ سربراہ ایک ہی ہونا چاہیے تو پھر اس کا زیادہ حق دار مرد ہی ہے، کیونکہ قرآن کے فرمان کے مطابق مرد ہی «قوام» ہے:    اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ:   (النساء: ۳۴) «مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے بھی کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں»۔ ہمارے ہاں ملکی سطح پر زیادہ تر انتظامی مسائل پارلیمانی نظامِ حکومت میں اختیارات کی ثنویت (duality) کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس نظام میں سربراہِ مملکت اور سربراہِ حکومت کے عہدے الگ الگ ہیں۔ ان دو عہدوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اصولی طور پر ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ اگر وزیر اعظم با اختیار ہو گا تو صدر کے عہدے کی حیثیت لازمی طور پر نمائشی ہو گی اور اگر صدر فعال ہو گا تو وزیر اعظم کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا۔ اس کے مقابلے میں صدارتی نظام منطقی اور توحیدی نظام ہے جس میں ایک ہی شخصیت سربراہِ مملکت بھی ہے اور سربراہِ حکومت بھی۔

            فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ:   «تو اللہ جو عرش کا مالک ہے وہ ان باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔» 

UP
X
<>