May 5, 2024

قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 39

اَنِ اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ فَاقْذِفِيْهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّيْ وَعَدُوٌّ لَّهُ ۭ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ  وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ

کہ اس (بچے) کو صندوق میں رکھو، پھر اس صندوق کو دریا میں ڈال دو۔ پھر دریا کو چھوڑ دو کہ وہ اسے ساحل کے پاس لاکر ڈال دے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا شخص اس (بچے) کو اُٹھالے گا جو میرا بھی دُشمن ہو گا، اور اس کا بھی دُشمن۔ اور میں نے اپنی طرف سے تم پر ایک محبوبیت نازل کردی تھی، اور یہ سب اس لئے کیا تھا تاکہ تم میری نگرانی میں پرورش پاؤ

 آیت ۳۹:  اَنِ اقْذِ فِیْہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْہِ فِی الْْیَمِّ:   «کہ اس کو ایک صندوق میں بند کرو، پھر اسے دریا میں ڈال دو»

            فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہُ:   «چنانچہ دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا، (وہاں سے) اس کو اٹھا لے جائے گا وہ جو میرا بھی دشمن ہے اور اس (بچے) کا بھی دشمن ہے۔»

            حضرت موسیٰ کی والدہ کی طرف کی جانے والی وحی کے بارے میں یہاں مزید تفصیل بیان نہیں فرمائی گئی، بلکہ اس کے بعد حضرت موسیٰ سے براہِ راست خطاب شروع ہو رہا ہے۔ یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ کچھ چیزیں پڑھنے اور سننے والے پر چھوڑ دی جاتی ہیں کہ وہ سیاق و سباق کے مطابق خود سمجھ جائے۔ بہر حال اس واقعہ کی مزید تفصیلات یوں ہیں کہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے آپ کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا۔ آپ کی بڑی بہن اپنی والدہ کی ہدایت کے مطابق صندوق پر نظر رکھے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ صندوق کے شاہی محل میں پہنچنے کی خبر بھی بچی کے ذریعے والدہ کو مل گئی۔ ادھر فرعون بچے کو قتل کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ اس کی بیوی حضرت آسیہ (جو بنی اسرائیل میں سے تھیں اور نیک خاتون تھیں) نے اس کو سمجھایا کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں ہے، یہ بچہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا، ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے، چنانچہ آپ اسے قتل نہ کریں۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر آپ کے چہرے کو انتہائی پر کشش بنا دیا تھا۔ چنانچہ آپ کی صورت ایسی من موہنی تھی کہ ہر شخص دیکھتے ہی آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔

            وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ:   «اور(اے موسیٰ!) میں نے تم پر اپنی محبت کا َپرتو ڈال دیا، تاکہ تم کو پالا جائے میری آنکھوں کے سامنے۔»

            لِتُصْنَعَ کے لفظی معنی ہیں:   «تا کہ تم کو بنایا جائے»۔ اسی مادہ سے لفظ مَصْنَع مشتق ہے جس کے معنی کارخانہ کے ہیں۔ یعنی حضرت موسی ٰ کی تربیت کا کارخانہ فرعون کا محل قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر آپ کی شکل میں ایسی کشش پیدا کر دی تھی کہ دشمن بھی دیکھتے تو گرویدہ ہو جاتے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ آپ کی پرورش کے انتظامات خصوصی طور پر شاہی محل میں کیے جانے منظور تھے۔

UP
X
<>