April 26, 2024

قرآن کریم > الـمسد

الـمسد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سورة اللهب

تمهيدى كلمات

        حضور صلى الله عليه وسلم اپنى بعثت كے بعد تقريباً تين سال تك دعوت وتبليغ كا فريضه زياده تر ذاتى سطح كى انفرادى ملاقاتوں (PP calls) كے ذريعے سر انجام ديتے رهے۔ اسى دوران آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے خاندان يعنى بنو هاشم كے لوگوں كو دعوت كى غرض سے دو مرتبه كھانے پر مدعو كيا۔ بعض مستشرقين نے آپ صلى الله عليه وسلم كے اس دور كے دعوتى رابطوں كو زير زمين (under ground) سرگرميوں كا نام ديا هے جو كه بالكل خلاف حقيقت بات هے، البته اسے دھيمے انداز كى (low key) كها جاسكتا هے۔

        بهر حال جب سورة الحجر كى آيت ﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ﴾ كے ذريعے آپ صلى الله عليه وسلم كو حكم ملا كه آپ صلى الله عليه وسلم اپنى دعوت كو ڈنكے كى چوٹ عام كريں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے قريش مكه كو كھلے عام دعوت دينے كا فيصله كيا۔ اس كے ليے آپ صلى الله عليه وسلم نے معاشرے كے عام رواج كے مطابق ايك دن كوهِ صفا پر كھڑے هوكر وَا صَبَاحَا كا نعره بلند كيا۔ اس زمانے ميں دستور تھا كه اگر كوئى شخص لوگوں كو كسى اهم خبر سے متنبه كرنا چاهتا تو وه برهنه حالت ميں كسى بلند جگه پر كھڑے هوكر وَا صَبَاحَا كى آواز بلند كرتا۔ عرب ميں يه نعره خطرے كا الارم سمجھا جاتا تھا۔ چناں چه جو كوئى بھى اسے اس حالت ميں ديكھتا يا اس كى آواز سنتا وه اس كى بات سننے كے ليے فوراً اس كى طرف دوڑ پڑتا۔ اس زمانے ميں زياده تر خبريں مخالف قبيلوں كے حملوں وغيره كے بارے ميں هوتى تھيں، اس حوالے سے كلمه وَا صَبَاحَا كا مفهوم يه تھا كه كل تم لوگ بهت برى صبح كا سامنا كرنے جا رهے هو۔ (اس زمانے ميں يه گويا هنگامى پريس كانفرنس كا ايك انداز تھا۔) چناں چه حضور صلى الله عليه وسلم نے اسى رواج پر جزوى انداز سے عمل كرتے هوئے كوهِ صفا پر كھڑے هوكر وَا صَبَاحَا كے اعلان سے لوگوں كو اپنى طرف متوجه كيا۔ گويا آپ صلى الله عليه وسلم بھى ان لوگوں كو ايك بھيانك صبح كى خبر دينے والے تھے، اگرچه يه خبر اگلے دن كى معمول كى صبح كى نهيں بلكه صبح قيامت سے متعلق تھى:

بات كوئى تو هنسى كى نكلے        خنده صبح قيامت هى سهى!

        بهر حال جب قريش كے لوگ جمع هوگئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے انهيں مخاطب كركے انذارِ آخرت كے بارے ميں ايك مدلل ومؤثر خطبه ارشاد فرمايا۔ ابو لهب آپ صلى الله عليه وسلم كے گھر كھانے كى دعوت ميں آپ صلى الله عليه وسلم كى يه باتيں پهلے بھى سن چكا تھا۔ اس نے اس موقع پر انتهائى گستاخانه انداز ميں كها: تَبّاً لَكَ اَلِھَذَا جَمَعْتَنَا؟ كه تيرے هاتھ ٹوٹ جائيں (معاذ الله! نقل كفر كفر نباشد) تم نے صرف اس بات كے ليے هميں بلايا تھا؟ چناں چه اس كے اس رويے اور اس جملے كے جواب ميں يه سورت نازل هوئى اور اسے تركى به تركى جواب ديا گيا كه هاتھ تو دراصل تمهارے ٹوٹے هيں اور تم اپنى بيوى سميت دهكتى آگ كے گڑھے ميں بھى گرچكے هو۔

        اپنے مضمون كے اعتبار سے اس سورت كا انداز سورة الكوثر كى آخرى آيت  ﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ﴾ سے ملتا جلتا هے۔  سورة الكوثر كى اس آيت ميں بھى الله تعالى نے حضور صلى الله عليه وسلم كے دشمنوں كے گستاخانه فقروں كا جواب خود ديا تھا اور ان پر واضح كرديا تھا كه «ابتر» تو حقيقت ميں تم لوگ هو اور تمهارے بعد دنيا ميں تمهارا كوئى نام ليوا نهيں هوگا۔

UP
X
<>