May 18, 2024

قرآن کریم > هود >surah 11 ayat 12

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَآئِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاء مَعَهُ مَلَكٌ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ 

پھر (اے پیغمبر !) جو وحی تم پر نازل کی جارہی ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ تم اُس کا کوئی حصہ چھوڑ بیٹھو ؟ اور اس سے تمہارا دل تنگ ہو جائے ؟ کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ ان (محمد ﷺ) پر کوئی خزانہ کیوں نازل نہیں ہوا، یا کوئی فرشتہ ان کے ساتھ کیوں نہیں آیا ؟ ‘‘ تم تو ایک آگاہ کرنے والے ہو ! اور اﷲ ہے جو ہر چیز کا مکمل اختیار رکھتا ہے

 آیت ۱۲:  فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ: «تو (اے نبی!) شاید آپ کچھ چیزیں چھوڑ دیں اُس میں سے جو آپ کی طرف وحی کی جا رہی ہے »

             وَضَآئِقٌ بِہ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْلآَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْجَآءَ مَعَہ مَلَکٌ:  «اور آپ کا سینہ اُس سے تنگ ہو رہا ہے جو وہ کہہ رہے ہیں، کہ کیوں نہیں ان کے اوپر اتار دیا گیا کوئی خزانہ یا کیوں نہیں آیا ان کے پاس کوئی فرشتہ۔»

            یہ مضمون اس سے پہلے بڑی وضاحت کے ساتھ سورۃ الانعام میں آ چکا ہے، لیکن زیر مطالعہ گروپ کی مکی سورتوں میں بھی جا بجا مشرکین کی ایسی باتوں کا ذکر ملتا ہے۔  اس لیے کہ ان دونوں گروپس میں شامل یہ تمام مکی سورتیں ایک ہی دور میں نازل ہوئی ہیں۔  

            یہاں مکی سورتوں کی ترتیب مصحف کے بارے میں ایک اہم نکتہ سمجھ لیں۔  رسول اللہ کے قیامِ مکہ کے بارہ سال کے عرصے کو اگر چار چار سال کے تین حصوں میں تقسیم کریں تو پہلے حصے یعنی پہلے چار سال میں جو سورتیں نازل ہوئیں وہ قرآن مجید کے آخری دو گروپوں میں شامل ہیں، یعنی سوره قٓ سے لے کر آخر تک۔  درمیانی چار سال کے دوران نازل ہونے والی سورتیں درمیانی گروپوں میں شامل ہیں اور آخری چار سال میں جو سورتیں نازل ہوئی ہیں وہ شروع کے دو گروپوں میں شامل ہیں۔ ایک گروپ میں سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف جبکہ اس دوسرے گروپ میں سوره یونس تا سورۃ المؤمنون(اس میں صرف ایک استثناء ہے جس کا ذکر بعد میں آئے گا) ۔  

             اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِیْـرٌ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ:  «( اے نبی!) آپ تو صرف خبردار کرنے والے ہیں، اور ہر چیز کا ذمہ دار اللہ ہے۔ »

             اس دور کی سورتوں میں مختلف انداز میں بار بار حضور  کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا فرضِ منصبی یہی ہے کہ آپ ان لوگوں کو خبردار کر دیں۔ اس کے بعد تمام معاملات اللہ کے حوالے ہیں۔  وہ بہتر جانتا ہے کہ ایمان یا ہدایت کی توفیق کسے دینی ہے اور کسے نہیں دینی۔  کوئی معجزہ دکھانا ہے یا نہیں، نافرمانوں کو کب تک مہلت دینی ہے اور کب ان پر عذاب بھیجنا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔  

UP
X
<>