فہرست مضامین > طلاق >بيوه كى عدت كا ذكر
بيوه كى عدت كا ذكر
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
تشریح آیت234: وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا : «اور جو تم میں سے وفات پا جائیں اوربیویاں چھوڑ جائیں»
یَّـتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا : «تو وہ عورتیں روکے رکھیں اپنے آپ کو چار ماہ دس دن تک۔ »
قبل ازیں آیت: 228 میں مطلقہ عورت کی عدت تین حیض بیان ہوئی ہے۔ یہاں بیوہ عورتوں کی عدت بیان کی جا رہی ہے کہ وہ شوہر کی وفات کے چار ماہ دس دن بعد تک اپنے آپ کو شادی سے روکے رکھیں۔
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ : «پس جب وہ اپنی اس مدت ّتک پہنچ جائیں (یعنی عدت ّگزار لیں)»
فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ : «تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اس معاملے میں جو کچھ وہ اپنے بارے میں دستور کے مطابق کریں۔ »
عدت گزار چکنے کے بعد وہ آزاد ہیں‘ جہاں مناسب سمجھیں نکاح کر سکتی ہیں۔ اب تم انہیں روکنا چاہو کہ ہماری ناک کٹ جائے گی‘ یہ بیوہ ہو کر صبر سے بیٹھ نہیں سکی‘ اس سے رہا نہیں گیا‘ اس طرح کی باتیں بالکل غلط ہیں‘ اب تمہارا کوئی اختیار نہیں کہ تم انہیں روکو۔
وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ : «اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ »
اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ کر جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں گی ۔ پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچ جائیں تووہ اپنے بارے میں جو کارروائی (مثلاً دوسرا نکاح) قاعدے کے مطابق کریں تو تم پر کچھ گناہ نہیں ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے پوری طرح باخبر ہے
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
تشریح اب بیوہ عورتوں کے بارے میں مزید ہدایات آ رہی ہیں۔
آیت 240: وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا : «اور جو لوگ تم میں سے وفات دے دیے جائیں اور وہ چھوڑ جائیں بیویاں»
وَّصِیَّۃً لِاَّزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ : «تو وہ وصیت کر جائیں اپنی بیویوں کے لیے ایک سال تک کے لیے نان نفقہ کی‘ بغیر اس کے کہ انہیں گھروں سے نکالا جائے۔ »
مثال کے طور پر ایک شخص فوت ہوا ہے اور اس کی چار بیویاں ہیں‘ جن میں سے ایک کے ہاں اولاد ہے‘ جبکہ باقی تین اس اولاد کی سوتیلی مائیں ہیں۔ اب یہ اولاد سگی ماں کو تو اپنی ماں سمجھ کر اس کی خدمت کرے گی اور باقی تین کو خواہ مخواہ کی ذمہ ّداری (liability) سمجھے گی۔ تو فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ ان بیواؤں کو فوراً گھر سے نکال دو‘ کہ جاؤ اپنا راستہ لو‘ جس سے تمہاری شادی تھی وہ تو فوت ہو گیا ‘ بلکہ ایک سال کے لیے انہیں گھر سے نہ نکالا جائے اور ان کا نان نفقہ دیا جائے۔ ان آیات کے نزول تک قانونِ وراثت ابھی نہیں آیا تھا‘ لہٰذا بیواؤں کے بارے میں وصیت کا عبوری حکم دیا گیا‘ جیسا کہ قبل ازیں آیت: 180 میں والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت کا عبوری حکم دیا گیا۔ سورۃ النساء میں قانونِ وراثت نازل ہوا تو اس میں والدین کا حق بھی معین ّکر دیا گیا اور شوہر کی وفات کی صورت میں بیوی کے حق کا اور بیوی کی وفات کی صورت میں شوہر کے حق کا بھی تعین ّکر دیا گیا اور اب والدین و عزیز و اقارب اور بیوگان کے حق میں وصیت کی ہدایات منسوخ ہو گئیں۔
فَاِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ : «پھر اگر وہ عورتیں خود نکل جائیں تو تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں جو کچھ وہ اپنے حق میں معروف طریقے پر کریں۔ »
اگر کوئی عورت عدت گزارنے کے بعد دوسری شادی کر کے کہیں َبسنا چاہے تو تم اسے سال بھر کے لیے روک نہیں سکتے۔ وہ اپنے حق میں معروف طریقے پر جو بھی فیصلہ کریں وہ اس کی مجاز ہیں‘ اس کا کوئی الزام تم پر نہیں آئے گا۔
وَاللّٰہُ عَزِیْـزٌ حَکِیْمٌ : «اور یقینا اللہ تعالیٰ زبردست ہے ‘ حکمت والا ہے۔ »
اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور اپنے بیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جایا کریں کہ ایک سال تک وہ (ترکے سے نفقہ وصول کرنے کا) فائد ہ اٹھا ئیں گی اور ان کو (شوہر کے گھر سے) نکالا نہیں جائے گا۔ ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو اپنے حق میں قاعدے کے مطابق وہ جو کچھ بھی کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اور اﷲ صاحبِ اقتدار بھی ہے، صاحبِ حکمت بھی