وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
تشریح آیت 222: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ : «اور وہ عورتوں کی ماہواری کے بارے میں آپ سے سوال کررہے ہیں۔ »
قُلْ ہُوَ اَذًی : «کہہ دیجیے وہ ایک ناپاکی بھی ہے اور ایک تکلیف کا مسئلہ بھی ہے»
فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ فِی الْْمَحِیْضِ : «تو حیض کی حالت میں عورتوں سے علیحدہ رہو»
وَلاَ تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ : «اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ »
فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ : «پھر جب وہ خوب پاک ہو جائیں تو اب ان کی طرف جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ »
معلوم ہوا کہ بدیہیاتِ فطرت اللہ تعالیٰ کے اوامر میں شامل ہیں۔ عورتوں کے ساتھ مجامعت کا طریقہ انسان کو فطری طو رپر معلوم ہے‘ یہ ایک امر ِطبعی ہے۔ ہرحیوان کو بھی جبلی طور پر معلوم ہے کہ اسے اپنی مادّہ کے ساتھ کیسا تعلق قائم کرنا ہے۔ لیکن اگر انسان فطری طریقہ چھوڑ کر غیر فطری طریقہ اختیار کرے اور عورتوں کے ساتھ بھی قومِ لوط والا عمل کرنے لگے تو یہ حرام ہے ۔ صحیح راستہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری فطرت میں ڈالا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ : «یقینا اللہ محبت کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں سے اور محبت کرتا ہے بہت پاکبازی اختیار کرنے والوں سے۔ »
ان سے اگر کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اس سے توبہ کرتے ہیں اور نا پاک چیزوں سے دور رہتے ہیں ۔
اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، لہٰذا حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان سے قربت (یعنی جماع) نہ کرو۔ ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس اسی طریقے سے جاؤ جس طرح اﷲ نے تمہیں حکم دیا ہے ۔ بیشک اﷲ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کریں اور ان سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہیں