فہرست مضامین > قران كي حكايات >حضرت لقمان عليه السلام كا قصه
حضرت لقمان عليه السلام كا قصه
پارہ
سورۃ
آیت
وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
سورۂ لقمان کا یہ رکوع اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اسے ہم نے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب میں بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ منتخب نصاب کے پہلے حصے (جامع اسباق) کا تیسرا درس اس رکوع پر مشتمل ہے۔
بنیادی طور پر اس رکوع میں حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل ہوئی ہیں ۔ ان نصیحتوں میں اس قدر جامعیت ہے کہ انسان کی نجاتِ اُخروی کے لوازمات کا ایک مکمل خاکہ ان کے اندر موجود ہے۔ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیروکار تھے، بلکہ وہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان تھے۔ ان کے حوالے سے جو بہت اہم نکتہ یہاں پر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے (اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران قبل ازیں بھی یہ نکتہ بار بارزیر بحث آچکا ہے) کہ ہر انسان فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اور اگر ماحول کے منفی اثرات کے باعث اس کی فطرت مسنح نہ ہو گئی ہو تو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر بھی کائنات کے کچھ حقائق تک اُس کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ وہ اپنی عقل سلیم کے ذریعے بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ایک ہے، اس کی تخلیق میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں ۔ وہ ایسی ہستی ہے جو تمام صفاتِ کمال سے بتمام و کمال متصف ّہے۔ اُسی نے اس کائنات کی تدبیر کی ہے اور وہی اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔
اسی طرح ایک سلیم الفطرت انسان عقلی طور پر یہ حقیقت بھی سمجھ سکتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف اس دنیا کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔اور یہ کہ جس خالق نے انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان کا محاسبہ بھی کرے گا۔ ہر انسان کو اپنے کیے کی سزا یا جزا کے لیے اپنے خالق کے حضور ضرور حاضر ہونا پڑے گا۔ ان حقائق کے ادراک کو ’’ایمان‘‘ تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن معرفت یا حکمت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ’’ایمان‘‘ تو نبی کی دعوت کی تصدیق کا نام ہے، جس تک انسان خود بخود رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ البتہ معرفت اور حکمت کے یہ دو مقامات (وجودِ باری تعالیٰ کا ادراک اور آخرت کا شعور) ایسے ہیں جن تک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے بھی پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی فطرت پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑ چکے ہوں ۔
ایک سلیم الفطرت انسان کو اس مقامِ معرفت پر پہنچ کر آگے بڑھنے کے لیے کسی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اب تک اُس نے عقل کی مدد سے اپنے خالق کو پہچان تو لیا ہے لیکن اس کے خالق کا اس سے تقاضا کیا ہے اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چنانچہ یہاں پہنچ کر وہ مدد کے لیے پکارتا ہے۔ انسان کی فطرتِ سلیمہ کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے الفاظ کا جامہ عطا کر کے ایک خوبصورت دعا کی صورت میں محفوظ فرما دیا ہے۔ یہ وہی دعا ہے جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر پڑھتے ہیں ۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک عام آدمی کی دعا نہیں ہے بلکہ یہ اُس انسان کی فطرت کی پکار ہے جواپنی سلامتی ٔطبع، سلامتی ٔفطرت اور سلامتی ٔعقل کی مدد سے اللہ کی معرفت حاصل کر چکا ہے۔ اس معرفت کے بعد اس کی روح گویا بے اختیار پکار اٹھتی ہے : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ) یعنی اُس نے اللہ کو خالق کائنات اور ربّ العالمین کے طور پر پہچان لیا ہے۔ وہ اللہ کو (الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) ہستی کے طور پر بھی جان چکا ہے۔ اس کے بعد وہ (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ) کی منطق کا قائل بھی ہو چکا ہے اور اپنی عقل سلیم ہی کی مدد سے اسے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) کا فلسفہ بھی سمجھ میں آچکا ہے۔ لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہیں جانتا۔ اسے اس حقیقت کا ادراک تو ہو گیا ہے کہ اسے اپنے رب ہی کی بندگی کرنا چاہیے اور اسی کی مرضی پر چلنا چاہیے، مگر اس کی بندگی کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس کی مرضی ہے کیا؟ اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں ۔ چنانچہ یہاں وہ اُسی ذات کی طرف رجوع کرتا ہے جس کی معرفت سے اس کا سینہ منور ہوا ہے اور اُس سے راہنمائی کی درخواست کرتا ہے: (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ) ’’(اے ہمارے ربّ!) ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی۔ راہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا، جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ۔‘‘
حضرت لقمان ایک ایسی ہی سلیم الفطرت شخصیت تھے جو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر کائنات کے مذکورہ حقائق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہ حبشی ٔالنسل تھے اور پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔ ان کا تعلق مصر اور سوڈان کے سرحدی علاقے نوبیا (Noobia) سے تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و ذہانت اور سلامتی فطرت کی مدد سے نہ صرف انہیں توحید کی معرفت حاصل ہوئی بلکہ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے کہ انسانی اعمال ضائع ہونے کی چیز نہیں ہیں ۔ اس رکوع میں حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر ہے جو انہوں نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے کو کی تھیں ۔ گویا یہ باتیں ان کی عمر بھر کی سوچ کا ُلب ّلباب ہیں ۔ چونکہ وہ کسی نبی کے پیروکار نہیں تھے اور نہ ہی وحی کی تعلیمات ان تک پہنچی تھیں اس لیے ان کی نصیحتوں میں نہ تو کسی رسول کا تذکرہ ہے اور نہ ہی ان حقائق کا ذکر ہے جن کا علم صرف وحی کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتاہے۔
عرب کے لوگ حضرت لقمان کی شخصیت سے خوب واقف تھے۔ وہ نہ صرف انہیں ایک دانشور حکیم کے طور پر جانتے تھے بلکہ ان کے اقوال کو اپنے اشعار اور خطبات میں نقل (quote) بھی کیا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں حضرت لقمان کے اقوال و نصائح کو قرآن میں نقل (quote) کر کے اللہ تعالیٰ گویا مشرکین عرب کو بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو! لقمان جیسا دانشور حکیم بھی اپنی سلامتی طبع اور سلامتی فکر کے باعث اسی اصول اور اسی نکتے تک پہنچا تھا جس کی دعوت آج تم لوگوں کو محمد دے رہے ہیں ۔
آیت ۱۲ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ: ’’اور ہم نے لقمان کو دانائی عطا کی تھی‘‘
اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ: ’’کہ اللہ کا شکر ادا کرو!‘‘
انسان کی حکمت و دانائی اور اس کی فطرت کے ’’سلیم‘‘ ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے اُس کے لیے اس کے دل میں بھلائی اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوں اور پھر وہ مناسب طریقے سے ان جذبات کا اظہار بھی کرے۔ چنانچہ اگر کسی شخص کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہوچکی ہو تو وہ اپنے محسن ِاعظم اور ُمنعم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور ہر لمحہ اور ہر مقام پر ضرور کلمہ شکر بجا لائے گا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ اللہ کے شکر کے اظہار کے لیے بہترین کلمہ شکر ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ ہے جو قرآن مجید کا کلمہ آغاز بھی ہے۔
وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ: ’’اور جو کوئی بھی شکر کرتا ہے تو وہ شکر کرتا ہے اپنے ہی بھلے کے لیے۔‘‘
وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ: ’’اور جو کوئی نا شکری کرتا ہے تو اللہ بے نیاز ہے اور وہ اپنی ذات میں خود محمود ہے۔‘‘
اور ہم نے لقمان کو دانائی عطا کی تھی، (اور اُن سے کہا تھا) کہ اﷲ کا شکر کرتے رہو۔ اور جو کوئی اﷲ کا شکر اَدا کرتا ہے، وہ خود اپنے فائدے کیلئے شکر کرتا ہے، اور اگر کوئی نا شکری کرے تو اﷲ بڑا بے نیا ز ہے، بذاتِ خود قابلِ تعریف !
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
آیت ۱۳ وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ: ’’اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے سے جبکہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا‘‘
یہاں سے ان نصیحتوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں حضرت لقمان اپنے بیٹے سے مخاطب ہیں۔ اگرچہ یہاں پر اس کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن انہوں نے یہ نصیحتیں اپنے انتقال کے وقت کی تھیں ۔ ہر شخص فطری طور پر چاہتا ہے کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنی اولاد کو اپنے ورثے کے بارے میں ضروری ہدایات دے جائے۔ جیسے عام طور پر بڑے بڑے کارخانہ داراور دولت مند لوگ اپنے کاروبار، اثاثہ جات اور اور لین دین کے معاملات سے متعلق وصیت کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت لقمان جیسے حکیم انسان نے بھی ضروری سمجھا کہ اپنے عمر بھر کے غوروفکر اور دانائی کا نچوڑاور لُب لباب موت سے پہلے اپنے بیٹے کو منتقل کر دیں۔
یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ: ’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا۔ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
لغوی اعتبار سے لفظ ’’ظلم‘‘ کا مفہوم ناانصافی اور حق تلفی ہے۔ ’’ظلم‘‘ کی تعریف یوں کی جاتی ہے : وَضْعُ الشَّیْیٔ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ. یعنی کسی چیز کو اُس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ پر رکھ دینا۔ ظلم کی اس تعریف (definition) پر غور کریں تو یہ نکتہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہاں شرک کو ’’ظلم عظیم‘‘ کیوں کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے اور کائنات کی ہر چیز اُس کی مخلوق ہے۔ وہ اپنی صفات میں یکتا اور تنہا ہے۔ اب اگر کوئی انسان ان صفات کے اعتبار سے مخلوق میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر کر دے یا اللہ تعالیٰ کو کسی اعتبار سے گرا کر مخلوق کی صف میں لا کھڑا کرے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا؟
حضرت لقمان کی اس اہم نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی طرف سے ایک نصیحت کا اضافہ کیا ہے جو والدین کے حقوق سے متعلق ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت لقمان نے کسر نفسی کے باعث خود اپنے حق سے متعلق بیٹے کو نصیحت کرنا مناسب نہ سمجھا ہو، چنانچہ اس کمی کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرما دیا۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم میں یہ پانچواں مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق توحید کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا بیان فرمایا ہے۔ اس سے پہلے البقرۃ: ۸۳، النساء: ۳۶، الانعام: ۱۵۱، اور بنی اسرائیل: ۲۳ میں اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر ہوا ہے۔
اور وہ وقت یاد کرو جب اُنہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ : ’’ میرے بیٹے ! اﷲ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ یقین جانو شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘
وَوَصَّيْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
آیت ۱۴ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ: ’’اور ہم نے وصیت کی انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں ۔‘‘
یعنی والدین کے بارے میں حسن سلوک کی تاکیدی ہدایت کی۔ پھر والدین میں سے بھی والدہ کے حق کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا، کیونکہ بچوں کی پیدائش اور پرورش کے سلسلے میں زیادہ مشقت اور تکلیف والدہ ہی کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔
حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ: ’’اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے (اپنے پیٹ میں ) کمزوری پر کمزوری جھیل کر‘‘
وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ: ’’اور اس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں ‘‘
پہلے نو ماہ تک بچہ ماں کے پیٹ میں رہ کر جونک کی طرح اس کا خون چوستا رہا اور پھر پیدائش کے بعد دو سال تک مسلسل اس کے جسم کی توانائیاں دودھ کی شکل میں نچوڑتا رہا۔
اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ: ’’کہ تم شکر کرو میرا اور اپنے والدین کا!‘‘
اِلَیَّ الْمَصِیْرُ: ’’اور میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہو گا۔‘‘
اب اللہ تعالیٰ اور والدین کے حقوق میں توازن کے سلسلے میں جو وضاحت اگلی آیت میں آ رہی ہے وہ ہم سورۃ العنکبوت کی آیت ۸ میں بھی پڑھ آئے ہیں ۔ اس سے ان دونوں سورتوں کے مضامین میں مشابہت اور مناسبت کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں یہ تاکید کی ہے۔ (کیونکہ) اُس کی ماں نے اُسے کمزوری پر کمزوری برداشت کر کے پیٹ میں رکھا، اور دوسال میں اُس کا دودھ چھوٹتا ہے۔ کہ تم میرا شکر اَدا کرو، اور اپنے ماں باپ کا۔ میرے پاس ہی (تمہیں ) لوٹ کر آنا ہے
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
آیت ۱۵ وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا: ’’اور اگر وہ تم پر دباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ شریک کرو اُس چیز کو جس کا تمہارے پاس کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مانو‘‘
یہاں والدین کے اپنی اولاد کو شرک پر مجبور کرنے کے حوالے سے ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی انتہائی کوشش کے ہیں۔ چنانچہ اس لفظ میں والدین کی طرف سے اپنا موقف منوانے کے لیے لڑنے جھگڑنے اور ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کا مفہوم موجود ہے۔ البتہ یہاں بہت واضح انداز میں بتا دیا گیا ہے کہ والدین کے تمام تر تقدس اور احترام کے باوجود انہیں اپنی حدود سے تجاوز کرنے اور اللہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ اگر والدین اپنی اولاد کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کرنے لگیں تو اولاد ان کے اس حکم کی تعمیل کسی قیمت پر نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے یہ اہم نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ یہ حکم صرف بُت پرستی کی ممانعت تک محدود نہیں بلکہ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ کے الفاظ میں ہر قسم کے شرک کی مطلق ممانعت ہے، بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ اگر والدین اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو توڑنے کا کہہ رہے ہوں تو گویا وہ شرک ہی کا حکم دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی دوسرے کو مطاع ماننا گویا اسے معبود بنا لینے کے مترادف ہے۔ جیسے اگر کوئی شخص اپنے نفس کے اُکسانے پر حرام میں منہ مارتا ہے، یعنی اللہ کے حکم کو چھوڑ کر اپنے نفس کی بات مانتا ہے تو گویا اس نے حرام دولت کو اور اپنے نفس کو معبود کا درجہ دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کا حکم بہت واضح ہے: (اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا) (الفرقان) ’’کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے! تو (اے نبی!) کیا آپ ایسے شخص کی ذمہ داری لے سکتے ہیں؟‘‘
شرک جیسے حساس مسئلے کو بہت زیادہ احتیاط اور اہتمام کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شرک کا محدود مفہوم سامنے رکھ کر اس کے بہت سے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ الحمد للہ! اس موضوع پر میں نے تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ ’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ کے موضوع پر میری چھ گھنٹے کی تقاریر کی ریکارڈنگ موجود ہے۔اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ان تقاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ان تقاریر کو اسی موضوع کے تحت کتابی صورت میں شائع بھی کیا جا چکا ہے۔
وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا: ’’اور دنیا میں ان کے ساتھ رہو بہتر انداز میں ‘‘
ملاحظہ کیجیے اللہ تعالیٰ کے احکام کے اندر کس قدر خوبصورت توازن پایا جاتا ہے۔ ایک طرف والدین کے حقوق ادا کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے، جبکہ دوسری طرف ان کے حقوق کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ اگر والدین کافر یا مشرک ہیں تو ان کے تمام حقوق ہی ساقط ہو جائیں، بلکہ ایسی صورت میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی اگر والدین مشرک ہیں تو بھی ان کی خدمت کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو اور ان کے مؤدّب بن کر رہو۔ البتہ اگر وہ شرک پر مجبور کریں یا اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کا یہ مطالبہ نہ مانا جائے اور اس حوالے سے بھی انکار کرتے ہوئے ان کے ساتھ بد تمیزی نہ کی جائے۔
وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ: ’’اور پیروی کرو اُس شخص کی جو میری طرف رخ کر چکا ہے‘‘
قرآن مجید میں جہاں بھی والدین کے حقوق کی بات ہوئی ہے وہاں ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جبکہ ان کی اطاعت کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں دیا گیا۔ بہر حال اگر والدین کی اطاعت ہو گی بھی تو اللہ کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہ کر ہی ہو گی۔ البتہ جہاں تک اتباع اور پیروی کا تعلق ہے تو وہ صرف اسی شخص کی جائز ہے جو ہر طرف سے منہ موڑ کر کُلی طور پر اللہ کی اطاعت میں آ چکا ہو۔ جب تک نبوت کا تسلسل قائم تھا تو یہ بات انبیاء کرام پر صادق آتی تھی۔ اب ختم نبوت کے بعد اُمت میں سے جو شخص بھی اللہ کی اطاعت اور حضور کی اتباع کرتے ہوئے لوگوں کو دین کی طرف بلائے اس آیت کی رو سے اس کا اتباع کرنا اور اس کا ساتھ دینا ضروری ہے۔
ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ: ’’پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے، پھر میں تمہیں جتلا دوں گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔‘‘
آخر کار تم سب نے میرے پاس ہی آنا ہے، والدین کو بھی میرے حضور حاضر ہونا ہے اور ان کی اولاد کو بھی۔ ان میں سے جس نے جو کیا ہوگا، وہ سب کچھ اسے دکھا دیا جائے گا۔
اب اگلی آیت میں حضرت لقمان کی دوسری نصیحت کا ذکر ہے۔ ان کی پہلی نصیحت آیت: ۱۳ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے بعد دو آیات میں والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔
اور اگر وہ تم پر یہ زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی کو (خدائی میں ) شریک قرار دو تو اُن کی بات مت مانو، اور دُنیا میں اُن کے ساتھ بھلائی سے رہو، اور ایسے شخص کا راستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لو لگارکھی ہو۔ پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اُس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو
يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
آیت ۱۶ یٰـبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ: ’’اے میرے بچے! اگر وہ (کوئی اچھا یا برا عمل) رائی کے دانے کے برابر بھی ہو‘‘
اپنی جسامت کے اعتبار سے رائی کا دانہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ مراد اس سے بہت ہی چھوٹی یا حقیر چیز ہے۔ قرآن مجید میں کسی چھوٹی یا حقیر چیز کا ذکر کرنے کے لیے حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ (رائی کے دانے) کے علاوہ بالعموم فَتِیْلاً یعنی کھجور کی گٹھلی کے ساتھ لگے ہوئے دھاگے (النساء: ۴۹) اور نَقِیْرًا یعنی کھجور کی گٹھلی کے گڑھے (النساء: ۱۲۴) جیسے الفاظ بھی آتے ہیں، لیکن رائی کا دانہ اپنی جسامت میں ان سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔
فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللّٰہُ: ’’پھر وہ ہو کسی چٹان میں یا آسمانوں میں یا زمین کے اندر، اُسے اللہ لے آئے گا۔‘‘
انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کے اعمال چاہے اچھے ہوں یا برے وہ بھی انسان ہی کی طرح اہم ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انسانی اعمال کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ انسان کا کوئی بھی عمل چاہے وہ کسی پہاڑ کی کھوہ میں وقوع پذیر ہوا ہو، خلاء کی پنہائیوں میں یا زمین کے پیٹ کی تاریکیوں میں سر انجام دیا گیا ہو، وہ اللہ سے چھپ نہیں سکتا۔
اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ: ’’یقینا اللہ بہت باریک بین، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
یہی مضمون سورۃ الزلزال میں اس طرح بیان ہوا ہے: (فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ) ’’تو جو کوئی کرے گا ذرّہ برابر بھلائی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جو کوئی کرے گا ذرّہ برابر برائی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔‘‘
نوٹ کیجیے! حضرت لقمان نے اپنی وصیت میں شرک اور انسانی اعمال کے لازمی نتائج کے بعد بعث بعد الموت یا جنت و دوزخ کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس لیے کہ یہ معلومات صرف وحی یا نبوت کی تعلیمات کے ذرائع سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچی تھیں۔ اس لیے ان کی نصیحتوں میں صرف وہی باتیں پائی جاتی ہیں جن تک کوئی صاحبِ حکمت شخص غور و خوض کے ذریعے پہنچ سکتا ہے ---- اب ان کی تیسری نصیحت ملاحظہ ہو:
(لقمان نے یہ بھی کہا :) ’’ بیٹا ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو، اور وہ کسی چٹان میں ہو، یا آسمانوں میں یا زمین میں ، تب بھی اﷲ اُسے حاضر کر دے گا۔ یقین جانو اﷲ بڑا باریک بیں ، بہت باخبر ہے
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ
آیت ۱۷ یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ: ’’ اے میرے بچے! نماز قائم کرو‘‘
نماز اللہ کے ذکر کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ نمازکی اقامت یا پابندی سے مقصود بنیادی طور پر یہی ہے کہ اللہ پر ایمان کی کیفیت کو ہر وقت مستحضر رکھا جائے، ورنہ انسان کانفس اسے غلط راستے پر ڈال دے گااور شیطان اسے ورغلانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ سورۃ العنکبوت کی آیت: ۴۵ میں نماز کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ یہ غلط کاموں سے روکتی ہے: (اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ) ’’تلاوت کرتے رہا کریں اُس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے اور نماز قائم کریں ، یقینا نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور برے کاموں سے‘‘۔ چنانچہ حضرت لقمان کی نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ بیٹا! اللہ کو محض پہچان لینا ہی کافی نہیں بلکہ اسے ہر وقت یاد رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ انسان کا سیدھے راستے سے بھٹکنے کا اندیشہ ہر وقت رہے گا۔ اب ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ حضرت لقمان کے ہاں نماز کی کیا صورت تھی مگر مراد اس سے یہی ہے کہ انسان کو اپنے شب و روز میں کوئی ایسا معمول ضرور اپنانا چاہیے جس سے اللہ کو ہر وقت یاد رکھا جائے۔
وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ: ’’اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو‘‘
یہ ان کی چوتھی نصیحت ہے۔ دراصل یہ انسان کی انسانیت، اس کی شرافت اور مروّت کا نا گزیر تقاضا ہے کہ وہ اپنے ابنائے جنس کی بھلائی کے لیے حسب استطاعت کوشاں رہے۔ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت جو کوئی انسان سر انجام دے سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ معاشرے میں رہتے ہوئے بھلائی کا پرچار کرے اور برائیوں سے لوگوں کو روکے۔
وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَ: ’’اور جو بھی تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو!‘‘
یہ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ حق ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے، اپنے اعمال اور رویے ّپر تنقید کسی کو بھی پسند نہیں ۔ چنانچہ جب آپ حق کی بات کریں گے، لوگوں کے غلط طرز عمل پر تنقید کریں گے، کسی کو برائی سے رک جانے کی نصیحت کریں گے، تو لوگ آپ کو برا بھلا بھی کہیں گے اور آپ پر کیچڑ بھی اچھالنے کی کوشش کریں گے۔ حتیٰ کہ وہ آپ کی جان کے درپے بھی ہو جائیں گے۔اس لیے اگر آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علم َبلند کر کے حق کا راستہ اپنانا ہے تو پھر آپ کو صبر کرنا بھی سیکھنا ہو گا اور مشکل سے مشکل حالات میں استقامت کا مظاہرہ بھی کرنا ہو گا۔
اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ: ’’یقینا یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘
غور کریں تو حضرت لقمان کی ان چارنصیحتوں میں وہی چار باتیں ایک دوسرے انداز میں بیان ہوئی ہیں جن کا ذکر سورۃ العصر میں آیا ہے۔ سورۃ العصر میں یہ باتیں یوں بیان ہوئی ہیں : (اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) ’’سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبرکی تلقین کی‘‘۔ سورۃ العصر میں مذکور ان چار نکات یعنی ایمان، اعمالِ صالحہ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا اگر حضرت لقمان کی نصائح کے مندرجات سے تقابل کریں تو ’’ایمان‘‘ کی جگہ حضرت لقمان نے توحید کا ذکر کیا ہے، اعمالِ صالحہ میں سے نماز اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ہے۔ تواصی بالحق کی جگہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی نصیحت کی ہے جبکہ ’’صبر‘‘ کا ذکر دونوں جگہ پر ہی موجود ہے۔ گویا دونوں مقامات پر استعمال ہونے والی اصطلاحات اگرچہ مختلف ہیں لیکن مضمون ایک ہی ہے۔
بیٹا! نماز قائم کرو، اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو، اور برائی سے روکو، اور تمہیں جو تکلیف پیش آئے، اُس پر صبر کرو۔ بیشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے
وَلا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلا تَمْشِ فِي الأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
آیت ۱۸ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ: ’’اور اپنے گالوں کو پھلا کر مت رکھو لوگوں کے سامنے‘‘
یعنی لوگوں سے بے رخی اور غرور و تکبر کی روش مت اختیار کرو۔
وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا: ’’اور زمین میں اکڑ کر مت چلو۔‘‘
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ: ’’یقینا اللہ ہر شیخی خورے، تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
لفظی اعتبار سے مُخْتَال کا تعلق خیل (گھوڑے) سے ہے۔ گھوڑے کی چال میں ایک خاص تمکنت اور غرور کا انداز پایا جاتاہے۔ چنانچہ جب انسان اپنی چال کے انداز میں گھوڑے کے سے غرور وتمکنت کا مظاہرہ کرتا ہے تو گویا وہ مُخْتَالبن جاتا ہے۔ یہی مضمون اس سے پہلے سورۂ بنی اسرائیل میں اس طرح بیان ہوا ہے: (وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً) ’’اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ تو زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ ہی پہنچ سکو گے پہاڑو ں تک اونچائی میں ‘‘ ---- اور اب آخری نصیحت:
اور لوگوں کے سامنے (غرور سے) اپنے گال مت پھلاؤ، اور زمین پر اِتراتے ہوئے مت چلو۔ یقین جانو اﷲ کسی اِترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا
وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ
آیت ۱۹ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ: ’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو‘‘
یہ میانہ روی (اقتصاد) صرف ظاہری چال ہی میں نہیں بلکہ زندگی کی مجموعی ’’چال‘‘ میں بھی مطلوب ہے۔ خصوصی طور پر قرآن میں معیشت کی میانہ روی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ الفرقان میں بندۂ مومن کی پختہ (mature) اور متوازن شخصیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے: (وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا) ’’اور وہ لوگ کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ (ان کا معاملہ) اس کے بین بین معتدل ہوتا ہے۔‘‘
وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ: ’’اور اپنی آواز کو پست رکھو۔‘‘
خصوصی طور پر کسی بحث و تمحیص کے دوران اونچی آواز میں چیخنے کے بجائے ٹھوس دلیل کے ساتھ ُپر وقار انداز میں گفتگو کرو۔ کیونکہ عام طور پر بحث کرتے ہوئے آدمی اونچی آواز میں چیخ چیخ کر اس وقت بولتا ہے جب اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ گویا وہ آواز کے زور سے اپنی دلیل کی کمی پوری کرنا چاہتا ہے۔
اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ: ’’یقینا سب سے نا پسندیدہ آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘
خواہ مخواہ بلند آواز سے بولنے میں انسان کی کوئی بڑائی نہیں ہے۔ اس میں اگر کوئی بڑائی ہوتی تو اس کا سب سے زیادہ مستحق گدھا قرار پاتا جس کی آواز غیر معمولی طور پر بلند اور زور دار ہوتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گدھے کی آواز سب آوازوں سے زیادہ مکروہ اور نا پسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک معقول انسان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ گدھے کی طرح ِچلا چلا کر گفتگو کرے، بلکہ بات چیت میں انسان کا بہتر طرز عمل یہی ہے کہ وہ تحمل سے گفتگو کرے اور گفتگو میں وزن پیدا کرنے کے لیے علمی و عقلی دلیل کا سہارا لے۔
اور اپنی چال میں اِعتدال اختیار کرو، اور اپنی آواز آہستہ رکھو۔ بیشک سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے۔‘‘