إِذْ قَالَ يُوسُفُ لأَبِيهِ يَا أَبتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ
تشریح آیت ۴: اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْہِ: «جب یوسف نے اپنے والد (یعقوب ) سے کہا»
حضرت یعقوب کی بڑی بیوی سے آپ کے دس بیٹے تھے اور وہ سب کے سب اُس وقت تک جوانی کی عمر کو پہنچ چکے تھے، جبکہ آپ کے دو بیٹے (یوسف اور بن یامین) آپ کی چھوٹی بیوی سے تھے۔ اِن میں حضرت یوسف بڑے تھے، مگر ابھی یہ دونوں ہی کم سن تھے۔
یٰٓـــاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُہُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ: «ابا جان! میں نے خواب میں دیکھا ہے گیارہ ستارو ں اور سورج اور چاند کو، میں نے اُن کو دیکھا ہے کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔»
(یہ اُس وقت کی بات ہے) جب یوسف نے اپنے والد (یعقوب علیہ السلام) سے کہا تھا کہ : ’’ اباجان ! میں نے (خواب میں ) گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔ ‘‘
قَالَ يَا بُنَيَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُواْ لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
تشریح آیت ۵: قَالَ یٰـبُنَیَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤُیَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ: «یعقوب نے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا»
حضرت یعقوب نے سمجھ لیا کہ اس خواب میں یوسف کے گیارہ بھائیوں اور ماں باپ کے بارے میں کوئی اشارہ ہے اور شاید اللہ تعالیٰ میرے اس بیٹے کے لیے کوئی خاص فضیلت ظاہر کرنے والا ہے۔
فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا: « ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی سازش کریں گے۔»
ممکن ہے وہ لوگ خواب سن کر اس میں واضح اشارے کو بھانپ لیں تو ان کے اندر حسد کی آگ بھڑک اُٹھے اور پھر وہ تمہارے خلاف کوئی سازش کریں، تمہیں گزند پہنچانے کی کوشش کریں۔
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ: « یقینا شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے۔»
وہ دشمنی میں کسی کو بھی کسی بھی وقت، کوئی بھی پٹی پڑھا سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا : ’’ بیٹا ! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے لئے کوئی سازش تیار کریں ، کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دُشمن ہے
وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
تشریح آیت ۶: وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ: «اور اسی طرح تمہارا رب تمہیں منتخب کرے گا»
حضرت یعقوب نے سمجھ لیا کہ میرے بیٹوں میں سے یوسف کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چن لیا ہے۔
وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْ وِیْلِ الْاَحَادِیْثِ: « اور تمہیں سکھائے گا تاویل الاحادیث میں سے (علم)»
یہاں پر تاویل حدیث کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک خوابوں کی تعبیر اور دوسرے معاملہ فہمی اور دور بینی، باتوں کی کُنہ (تہ) تک پہنچ جانا، حقیقت تک رسائی ہو جانا۔
وَیُتِمُّ نِعْمَتَہ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ کَمَآ اَتَمَّہَا عَلٰٓی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْحٰقَ: «اور اِتمام فرمائے گا اپنی نعمت کا تجھ پر اور آل ِیعقوب پر جس طرح اُس نے اس سے پہلے اپنی نعمت کا اِتمام فرمایا تیرے آباء واَجداد ابراہیم اور اسحاق پر۔»
یہاں حضرت یعقوب نے کسر ِنفسی کے سبب حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق کے ساتھ اپنا نام نہیں لیا۔
اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ: « یقینا تیرا رب جاننے والا، حکمت والا ہے۔»
اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں (نبوت کیلئے) منتخب کرے گا، اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا (جس میں خوابوں کی تعبیر کا علم بھی داخل ہے) اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اُسی طرح پوری کرے گا جیسے اُس نے اِس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔ یقینا تمہارا پروردگار علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک
لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ
تشریح آیت ۷: لَقَدْ کَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٓ اٰیٰتٌ لِّلسَّآئِلِیْنَ: « یقینا یوسف اور آپ کے بھائیوں (کے قصے) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں پوچھنے والوں کے لیے۔ »
یعنی جن لوگوں (قریش ِمکہ) نے یہ سوال پوچھا ہے اور جن لوگوں (یہود مدینہ) کے کہنے پر پوچھا ہے، ان سب کے لیے اس قصے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اگر وہ صرف اس ایک قصے کو حقیقت کی نظروں سے دیکھیں اور اس پر غور کریں تو بہت سے حقائق نکھر کر اُن کے سامنے آ جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ (تم سے یہ واقعہ) پوچھ رہے ہیں ، اُن کیلئے یوسف اور اُن کے بھائیوں (کے حالات میں ) بڑی نشانیاں ہیں
إِذْ قَالُواْ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ
تشریح آیت ۸: اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ: « جب انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے والد کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں جبکہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں۔»
برادرانِ یوسف نے کہا کہ ہم پورے دس لوگ ہیں، سب کے سب جوان اور طاقتور ہیں، خاندان کی شان تو ہمارے دم قدم سے ہے (قبائلی زندگی میں نوجوان بیٹوں کی تعداد پر ہی کسی خاندان کی شان و شوکت اور قوت و طاقت کا انحصار ہوتا ہے) لیکن ہمارے والد ہمیں نظر انداز کر کے ان دو چھوٹے بچوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِنِ : « یقینا ہمارے والد صریح غلطی پر ہیں۔»
(یہ اُس وقت کا واقعہ ہے) جب یوسف کے ان (سوتیلے) بھائیوں نے (آپس میں ) کہا تھا کہ : ’’ یقینی طور پر ہمارے والد کو ہمارے مقابلے میں یوسف اور اُس کے (حقیقی) بھائی (بنیامین) سے زیادہ محبت ہے، حالانکہ ہم (اُن کیلئے) ایک مضبوط جتھہ بنے ہوئے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے والد کسی کھلی غلط فہمی میں مبتلا ہیں
اقْتُلُواْ يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ
تشریح آیت ۹: اقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَـکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ: «(چنانچہ) قتل کر دو یوسف کو یا اسے پھینک آؤ (دور) کسی علاقے میں تا کہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائے»
یوسف چونکہ ان دونوں میں بڑا ہے، اس لیے وہی والد صاحب کی ساری توجہ اور عنایات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے، چنانچہ جب یہ نہیں رہے گا تو لا محالہ والد صاحب کی تمام تر شفقت اور مہربانی ہمارے لیے ہی ہو گی۔
وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ: « اور پھر اس کے بعد نیک بن جانا۔»
اس فقرے میں اُن کے نفس اور ضمیر کی کشمکش کی جھلک صاف نظر آ رہی ہے۔ ضمیر تو مسلسل ملامت کر رہا تھا کہ یہ کیا کرنے لگے ہو؟ اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ یہ تمہاری سوچ درست نہیں ہے! لیکن عام طور پر ایسے مواقع پر انسان کا نفس اس کے ضمیر پر غالب آ جاتا ہے، جیسا کہ ہم نے سورۃ المائدۃ (آیت ۳۰) میں ہابیل اور قابیل کے سلسلے میں پڑھا تھا: فَطَوَّعَتْ لَہ نَفْسُہ قَتْلَ اَخِیْہِ. «پس قابیل کے نفس نے اُسے آمادہ کر ہی لیا اپنے بھائی کے قتل کرنے پر۔»
اسی طرح ان لوگوں نے بھی اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک دفعہ یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتار لو، پھر اس کے بعد توبہ کر کے اور کفارہ وغیرہ ادا کر کے کسی نہ کسی طرح اس جرم کی تلافی کر دیں گے اور باقی زندگی نیک بن کر رہیں گے۔
(اب اس کا حل یہ ہے کہ) یوسف کو قتل ہی کر ڈالو، یا اُسے کسی اور سرزمین میں پھینک آؤ، تاکہ تمہارے والد کی ساری توجہ خالص تمہاری طرف ہو جائے، اور یہ سب کرنے کے بعد پھر (توبہ کر کے) نیک بن جاؤ۔ ‘‘
قَالَ قَآئِلٌ مَّنْهُمْ لاَ تَقْتُلُواْ يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ
تشریح آیت ۱۰: قَالَ قَآئِلٌ مِّنْہُمْ لاَ تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ: « کہا ان میں سے ایک کہنے والے نے کہ یوسف کو قتل مت کرو»
یہ شریف النفس انسان اُن کے سب سے بڑے بھائی تھے جنہوں نے یہ مشورہ دیا۔ ان کا نام یہودا تھا، اور انہی کے نام پر لفظ « یہودی» بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ تو اس سے پیچھا چھڑانے کا ہے، لہٰذا ضروری نہیں کہ قتل جیسا گناہ کر کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جائے، اس کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
وَاَلْقُوْہُ فِیْ غَیٰـبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَۃِ: « اور ڈال آؤ اسے کسی باؤلی کے طاقچے میں، اٹھا لے جائے گا اس کو کوئی قافلہ»
پرانے زمانے کے کنویں کی ایک خاص قسم کو باؤلی کہا جاتا تھا، اس کا منہ کھلا ہوتا تھا لیکن گہرائی میں یہ تدریجاً تنگ ہوتا جاتا تھا۔ پانی کی سطح کے قریب اس کی دیوار میں طاقچے سے بنائے جاتے تھے۔ اس طرح کی باؤلیاں پرانے زمانے میں قافلوں کے راستوں پر بنائی جاتی تھیں۔ چنانچہ اس مشورے پر عمل کی صورت میں قوی امکان تھا کہ کسی قافلے کا ادھر سے گزر ہو گا اورقافلے والے یوسف کو باؤلی سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ بڑے بھائی کے اس مشورے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ اس طرح کم از کم یوسف کی جان بچ جائے گی اور ہم بھی اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہوں گے۔
اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ: « اگر تم کچھ کرنے ہی والے ہو۔»
جب نو بھائی اس بات پر پوری طرح تل گئے کہ یوسف سے بہرحال چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو دسواں بھائی ان کو اس حرکت سے بالکل منع تو نہیں کر سکا، لیکن اس نے کوشش کی کہ کم از کم وہ لوگ یوسف کو قتل کرنے سے باز رہیں۔
انہی میں سے ایک کہنے والے نے کہا : ’’ یوسف کو قتل تونہ کرو، البتہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو اُسے کسی اندھے کنویں میں پھینک آؤ، تاکہ کوئی قافلہ اُسے اُٹھا کر لے جائے۔ ‘‘
قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا لَكَ لاَ تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ
تشریح آیت ۱۱: قَالُوْا یٰٓــاَبَانَا مَا لَکَ لاَ تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ وَاِنَّا لَہ لَنٰصِحُوْنَ: « انہوں نے کہا: اباجان! کیا وجہ ہے کہ آپ ہم پر بھروسہ نہیں کرتے یوسف کے معاملے میں، حالانکہ ہم تو اس کے بڑے خیرخواہ ہیں۔»
(چنانچہ) ان بھائیوں نے (اپنے والد سے) کہا کہ : ’’ ابا ! یہ آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر اطمینان نہیں کرتے ؟ حالانکہ اس میں کوئی شک نہ ہونا چاہیئے کہ ہم اُس کے پکے خیر خواہ ہیں
أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
تشریح آیت ۱۲: اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ: « کل ذرا اسے ہمارے ساتھ بھیجئے، وہ کچھ َچر چگ ُلے گا اور کھیلے کودے گا، اور ہم یقینااس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔»
انہوں نے کہا کہ ہم کل شکار پر جا رہے ہیں، آپ یوسف کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیجیے۔ وہاں یہ درختوں سے پھل وغیرہ کھائے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ آپ اس کی طرف سے بالکل فکر مند نہ ہوں، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔
کل آپ اُسے ہمارے ساتھ (تفریح کیلئے) بھیج دیجئے، تاکہ وہ کھائے، پیئے، اور کچھ کھیل کود لے۔ اور یقین رکھئے کہ ہم اُس کی پوری حفاظت کریں گے۔ ‘‘
قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُواْ بِهِ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ
تشریح آیت ۱۳: قَالَ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْٓ اَنْ تَذْہَبُوْا بِہ وَاَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَ: «یعقوب نے فرمایا :مجھے یہ بات اندیشہ میں ڈالتی ہے کہ تم اسے لے جاؤ، اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھا جائے جبکہ تم اس سے غافل ہو جاؤ۔»
مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ وہ تمہارے ساتھ چلا جائے، پھر تم لوگ اپنی مصروفیات میں منہمک ہو جاؤ، اس طرح وہ جنگل میں اکیلا رہ جائے اور کوئی بھیڑیا اسے پھاڑ کھائے۔
یعقوب نے کہا : ’’ تم اُسے لے جاؤ گے تو مجھے (اُس کی جدا ئی کا) غم ہو گا، اور مجھے یہ اندیشہ بھی ہے کہ کسی وقت جب تم اُ س کی طرف سے غافل ہو، تو کوئی بھیڑیا اُسے کھاجائے۔ ‘‘
قَالُواْ لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَّخَاسِرُونَ
تشریح آیت ۱۴: قَالُوْا لَئِنْ اَکَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ: « وہ کہنے لگے کہ اگر (ہمارے ہوتے ہوئے) اسے بھیڑیا کھا گیا جبکہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں، تب تو ہم بہت ہی نکمے ثابت ہوں گے۔»
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے جیسے دس کڑیل جوانوں کے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیا کھا جائے، ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں۔
وہ بولے : ’’ ہم ایک مضبوط جتھے کی شکل میں ہیں ، اگر پھر بھی بھیڑیا اُسے کھا جائے تو ہم تو بالکل ہی گئے گذرے ہوئے ! ‘‘
فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ
تشریح آیت ۱۵: فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ یَّجْعَلُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ: « پھر جب وہ اس کو لے گئے اور سب اس پر متفق ہو گئے کہ اسے ڈال دیں باؤلی کے طاقچے میں۔»
یہاں پر اَجْمَعُوْٓا کے بعد عَلٰی کا صلہ محذوف ہے، یعنی اس منصوبے پر وہ سب کے سب جمع ہو گئے، انہوں نے اس رائے پر اتفاق کر لیا۔
وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ: « اور ہم نے (اُس وقت) وحی کی یوسف کو کہ تم (ایک دن) اُن کو ان کی یہ حرکت ضرور جتلاؤ گے اور انہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہو گا۔»
یہ بات الہام کی صورت میں حضرت یوسف کے دل میں ڈالی گئی ہو گی، کیونکہ ابھی آپ کی عمر نبوت کی تو نہیں تھی کہ باقاعدہ وحی ہوتی۔ بہر حال آپ پر یہ الہام کیا گیا کہ ایک دن تم اپنے ان بھائیوں کو یہ بات اُس وقت جتلاؤ گے جب انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہو گا۔ اس چھوٹے سے فقرے میں جو بلاغت ہے اس کا جواب نہیں۔ چند الفاظ کے اندر حضرت یوسف کی تسلی کے لیے گویا پوری داستان بیان کر دی گئی ہے کہ تمہاری جان کو خطرہ نہیں ہے، تم نہ صرف اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے میں کامیاب ہو جاؤ گے بلکہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب تم اس قابل ہو گے کہ اپنے ان بھائیوں کو اُن کا یہ سلوک جتلا سکو۔
پھر ہوا یہ کہ جب وہ اُ ن کو ساتھ لے گئے، اور انہوں نے یہ طے کر ہی رکھاتھا کہ اُنہیں ایک اندھے کنویں میں ڈال دیں گے، (چنانچہ ڈال بھی دیا) تو ہم نے یوسف پر وحی بھیجی کہ (ایک وقت آئے گا جب) تم ان سب کو جتلاؤ گے کہ انہوں نے یہ کام کیا تھا، اور اُ س وقت اُنہیں پتہ بھی نہ ہوگا (کہ تم کون ہو ؟)
وَجَاؤُواْ أَبَاهُمْ عِشَاء يَبْكُونَ
تشریح آیت ۱۶: وَجَآؤُوْٓ اَبَاہُمْ عِشَآءً یَّبْکُوْنَ: « اور وہ آئے اپنے والد کے پاس شام کو روتے ہوئے۔»
اور رات کو وہ سب اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے پہنچ گئے
قَالُواْ يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لِّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ
تشریح آیت ۱۷: قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا: «انہوں نے کہا: ابا جان! ہم جا کر دوڑ کا مقابلہ کرنے لگے اور ہم نے چھوڑ دیا تھا یوسف کو اپنے سامان کے پاس»
ہم نے اپنا اضافی سامان اکٹھا کر کے ایک جگہ رکھا اور اس سامان کے پاس ہم نے یوسف کو چھوڑ دیا تھا۔ خود ہم ایک دوسرے سے دوڑمیں مقابلہ کرتے ہوئے دور نکل گئے۔
فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ کُنَّا صٰدِقِیْنَ: « تو اُسے کھا لیا ایک بھیڑیے نے۔اور آپ ہماری بات مانیں گے تو نہیں، خواہ ہم کتنے ہی سچے ہوں۔»
کہنے لگے : ’’ ابا جی ! یقین جانئے، ہم دوڑنے کا مقابلہ کر نے چلے گئے تھے، اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا اُسے کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے، چاہے ہم کتنے ہی سچے ہوں ۔ ‘‘
وَجَآؤُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ
تشریح آیت ۱۸: وَجَآؤُوْ عَلٰی قَمِیْصِہ بِدَمٍ کَذِبٍ: « اور وہ اُس کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لائے۔»
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا: «حضرت یعقوب نے فرمایا: (واقعہ یوں نہیں) بلکہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا ہے۔»
ان کی بات سن کر حضرت یعقوب نے فرمایا کہ نہیں، بات کچھ اور ہے۔ یہ بات جو تم بتا رہے ہویہ تو تمہارے جی کی گھڑی ہوئی ایک بات ہے۔ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے ایک بڑی بات کو ہلکا کر کے پیش کیا ہے اور تم لوگوں نے کوئی بہت بڑا غلط اقدام کیا ہے۔
فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ: « اب صبر ہی بہترہے، اور اللہ ہی کی مدد طلب کی جا سکتی ہے اس پر جو تم بیان کر رہے ہو۔»
حضرت یعقوب اکیلے تھے، بوڑھے تھے اور دوسری طرف دس جوان بیٹے، اس صورتِ حال میں اور کیا کہتے؟
اور وہ یوسف کی قمیض پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کر لے آئے۔ اُن کے والد نے کہا : ’’ (حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے دلوں نے اپنی طرف سے ایک بات بنالی ہے۔ اب تو میرے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ اور جو باتیں تم بنار ہے ہو، اُن پر اﷲ ہی کی مدد درکار ہے۔ ‘‘
وَجَاءتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُواْ وَارِدَهُمْ فَأَدْلَى دَلْوَهُ قَالَ يَا بُشْرَى هَذَا غُلاَمٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
تشریح آیت ۱۹: وَجَآءَتْ سَیَّارَۃٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَہُمْ: « اور (کچھ عرصہ بعد) ایک قافلہ آیا تو انہوں نے بھیجا اپنے آگے چلنے والے کو»
جب قافلے چلتے تھے تو ایک آدمی قافلے کے آگے آگے چلتا تھا۔ وہ قافلے کے پڑاؤ کے لیے جگہ کا انتخاب کرتا اور پانی وغیرہ کے انتظام کا جائزہ لیتا۔ قافلے والوں نے اس ڈیوٹی پر مامور شخص کو بھیجا کہ وہ جا کر پانی کاکھوج لگائے۔ اس شخص نے باؤلی دیکھی تو پانی نکالنے کی تدبیر کرنے لگا۔
فَاَدْلٰی دَلْوَہ: « تو اس نے لٹکایا اپنا ڈول۔»
حضرت یوسف نے اس کے ڈول کو پکڑ لیا۔ اس نے جب ڈول کھینچا اور حضرت یوسف کو دیکھا تو:
قَالَ یٰبُشْرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ وَاَسَرُّوْہُ بِضَاعَۃً: « وہ پکار اٹھا کہ خوشخبری ہو! یہ تو ایک لڑکا ہے۔ اور انہوں نے اسے چھپا لیا، ایک پونجی سمجھ کر۔»
کہ بہت خوبصورت لڑکا ہے، بیچیں گے تو اچھے دام ملیں گے۔
وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ: « اور اللہ خوب جانتا تھا جو وہ کر رہے تھے۔»
اور (دوسری طرف جس جگہ انہوں نے یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا، وہاں ) ایک قافلہ آیا۔ قافلے کے لوگوں نے ایک آدمی کو پانی لانے کیلئے بھیجا، اور اُس نے اپنا ڈول (کنویں میں ) ڈالا تو (وہاں یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر) پکار اُٹھا : ’’ لو خوشخبری سنو ! یہ تو ایک لڑکا ہے۔ ‘‘ اور قافلے والوں نے انہیں ایک تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا، اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، اﷲ کو اس کا پورا پورا علم تھا
وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
تشریح آیت ۲۰: وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُوْدَۃٍ وَکَانُوْا فِیْہِ مِنَ الزَّاہِدِیْنَ: «اور (مصر پہنچ کر) انہوں نے بیچ دیا اس کو بڑی تھوڑی سی قیمت پرچند درہم کے عوض، اوروہ تھے اس کے معاملے میں بہت ہی قناعت پسند۔»
اگرچہ انہوں نے حضرت یوسف کو مال ِتجارت سمجھ کر چھپایا تھا، مگر مصر پہنچ کر بالکل ہی معمولی قیمت پر فروخت کر دیا۔ اس زمانے میں درہم ایک دینار کا چوتھا حصہ ہوتا تھا۔ گویا انہوں نے چند چونیوں کے عوض آپ کو بیچ دیا۔ اس لیے کہ آپ کے بارے میں اُس وقت تک انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں، ایک تو آپ ان کے لیے مفت کا مال تھے جس پر ان لوگوں کا کوئی سرمایہ وغیرہ نہیں لگا تھا، لہٰذا جو مل گیا انہوں نے اسے غنیمت جانا۔ دوسرے ان لوگوں کو آپ کی طرف سے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ لڑکے کے وارث آ کر کہیں اسے پہچان نہ لیں اور ان پر چوری کا الزام نہ لگ جائے۔ لہٰذا وہ جلد از جلد آپ کے معاملے سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔
اور (پھر) انہوں نے یوسف کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا جو گنتی کے چند درہموں کی شکل میں تھی، اور اُن کو یوسف سے کوئی دلچسپی نہیں تھی
وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لاِمْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ
تشریح آیت ۲۱: وَقَالَ الَّذِی اشْتَرٰہُ مِنْ مِّصْرَ لاِمْرَاَتِہٓ اَکْرِمِیْ مَثْوٰہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَـآ اَوْ نَتَّخِذَہ وَلَدًا: «اور مصر کے جس شخص نے یوسف کو خریدا، (اس نے) اپنی بیوی سے کہا: اس کو اچھے طریقے سے رکھنا، ہو سکتا ہے یہ ہمارے لیے نفع بخش ہو یا پھر ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لیں۔»
وہ شخص مصر کی حکومت میں بہت اعلیٰ منصب (عزیز مصر) پر فائز تھا۔ حضرت یوسف کو بیٹا بنانے کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس کے ہاں اولاد نہیں تھی۔
وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ: «اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں تمکن عطا کیا»
اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے یوسف کو اس دور کی متمدن ترین مملکت میں پہنچا دیا اور وہاں آپ کی رہائش کا بندوبست بھی کیا تو کسی جھونپڑی میں نہیں بلکہ ملک کے ایک بہت بڑے، صاحب ِحیثیت شخص کے گھر میں، اور وہ بھی محض ایک غلام کے طور پر نہیں بلکہ خصوصی عزت و اکرام کے انداز میں۔
وَلِنُعَلِّمَہ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ: «اور تا کہ ہم اس کو سکھائیں باتوں کی تہہ تک پہنچنے کا علم۔»
یعنی عزیز مصر کے گھر میں آپ کو جگہ بنا کر دینے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہاں آپ کو «معاملہ فہمی» کی تربیت فراہم کی جائے۔ عزیز مصر کا گھر ایک طرح کا سیکریٹریٹ ہو گا جہاں آئے دن انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوتے ہوں گے، اور قومی وبین الاقوامی نوعیت کے انتہائی اہم امور پر بحث وتمحیص کے بعد فیصلے کیے جاتے ہوں گے اور حضرت یوسف کو ان تمام سرگرمیوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کے مواقع میسر آتے ہوں گے۔ اس طرح بہت اعلی سطح کی تعلیم و تربیت کا ایک انتظام تھا جو حضرت یوسف کے لیے یہاں پر کر دیا گیا۔
وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ: «اور اللہ تو اپنے فیصلے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔»
اللہ تعالیٰ اپنے ارادے کی تنفیذ پر غالب ہے، وہ اپنا کام کر کے رہتا ہے۔
اور مصر کے جس آدمی نے اُنہیں خریدا، اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ : ’’ اس کو عزت سے رکھنا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے گا، یا پھر ہم اسے بیٹا بنالیں گے۔ ‘‘ اس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسف کے قدم جمائے، تاکہ اُنہیں باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائیں ، اور اﷲ کو اپنے کام پر پورا قابو حاصل ہے، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے
وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
تشریح آیت ۲۲: وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٓ اٰتَیْنٰـہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا: « اور جب آپ اپنی جوانی کو پہنچ گئے تو ہم نے آپ کو حکم اور علم عطا کیا۔»
وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنََ: « اور اسی طرح ہم محسنین کو بدلہ دیتے ہیں۔»
حکم اور علم سے مراد نبوت ہے۔ حکم کے معنی قوتِ فیصلہ کے بھی ہیں اور اقتدار کے بھی۔ علم سے مراد علم وحی ہے۔
اور جب یوسف اپنی بھر پور جوانی کو پہنچے تو ہم نے اُنہیں حکمت اور علم عطا کیا، اور جو لوگ نیک کام کرتے ہیں ، اُن کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
تشریح آیت ۲۳: وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہ: « اور آپ کو پھسلانے کی کوشش کی اس عورت نے جس کے گھر میں آپ تھے»
یعنی عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہو گئی۔ قرآن میں اس کا نام مذکور نہیں، البتہ تورات میں اس کا نام زلیخا بتایا گیا ہے۔
وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَیْتَ لَکَ: «اور (ایک موقع پر) اس نے دروازے بند کر لیے اور بولی جلدی سے آجاؤ!»
قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہ رَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ: « آپ نے فرمایا :میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں، وہ میرا رب ہے، اُس نے مجھے اچھا ٹھکانہ دیا ہے۔»
یہاں پر «رب» کے دونوں معنی لیے جا سکتے ہیں اللہ بھی اور آقا بھی۔ چنانچہ اس فقرے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ اللہ میرا رب ہے اور اس نے میرے لیے بہت اچھے ٹھکانے کا انتظام کیا ہے، میں اس کی نافرمانی کا کیسے سوچ سکتا ہوں! دوسرے معنی میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا خاوند میرا آقا ہے، وہ میرا محسن اور مربی بھی ہے، اس نے مجھے اپنے گھر میں بہت عزت و اکرام سے رکھا ہے، اور میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاؤں، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا! یہ دوسرا مفہوم اس لیے بھی زیادہ مناسب ہے کہ «رب» کا لفظ اس سورت میں آقا اور بادشاہ کے لیے متعدد بار استعمال ہوا ہے۔
اِنَّہ لاَ یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ: «بے شک ظالم لوگ فلاح نہیں پایا کرتے۔»
اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے، اُس نے اُ ن کو ورغلانے کی کوشش کی، اور سارے دروازوں کو بند کر دیا، اور کہنے لگی : ’’ آبھی جاؤ ! ‘‘ یوسف نے کہا : ’’ اﷲ کی پناہ ! وہ میرا آقا ہے، اُس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ ظلم کرتے ہیں ، انہیں فلاح حاصل نہیں ہوتی۔ ‘‘
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
تشریح آیت ۲۴: وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہ وَہَمَّ بِہَا لَوْلآَ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہ: « اور اُس عورت نے ارادہ کیا آپ کا، اور آپ بھی ارادہ کر لیتے اس کا اگر نہ دیکھ لیتے اپنے رب کی ایک دلیل۔»
حضرت یوسف جوان تھے اور ممکن تھا طبع بشری کی بنیاد پر آپ کے دل میں بھی کوئی ایسا خیال جنم لیتا، مگراللہ نے اس نازک موقع پر آپ کی خصوصی مدد فرمائی اور اپنی خصوصی نشانی دکھا کر آپ کو کسی منفی خیال سے محفوظ رکھا۔ یہ نشانی کیا تھی، اس کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں، البتہ تورات میں اس کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے کہ عین اس موقع پر حضرت یعقوب کی شکل دیوار پر ظاہر ہوئی اور آپ نے انگلی کا اشارہ کر کے حضرت یوسف کو باز رہنے کے لیے کہا۔
کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ: « یہ اس لیے کہ ہم پھیر دیں اس سے برائی اور بے حیائی کو۔»
یعنی ہم نے اپنی نشانی دکھا کر حضرت یوسف سے برائی اور بے حیائی کا رخ پھیر دیا اور یوں آپ کی عصمت و عفت کی حفاظت کا خصوصی اہتمام کیا۔
اِنَّہ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ: « یقینا وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھے۔»
واضح رہے کہ یہاں لفظ مُخْلَص (لام کی زبر کے ساتھ) آیا ہے۔ مُخلِص اور مُخلَص کے فرق کو سمجھ لیجیے۔ مُخلِص اسم الفاعل ہے یعنی خلوص و اخلاص سے کام کرنے والا اور مُخلَص وہ شخص ہے جس کو خالص کر لیا گیا ہو۔ اللہ کے مخلَص وہ ہیں جن کو اللہ نے اپنے لیے خالص کر لیا ہو، یعنی اللہ کے خاص برگزیدہ اور چہیتے بندے۔
اُس عورت نے تو واضح طورپر یوسف (کے ساتھ برائی) کا ارادہ کر لیا تھا، اور یوسف کے دل میں بھی اُس عورت کا خیال آچلا تھا، اگر وہ اپنے رَبّ کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے۔ ہم نے ایسا اس لئے کیا تاکہ اُن سے برائی اور بے حیائی کا رُخ پھیر دیں ۔ بیشک وہ ہمارے منتخب بندوں میں سے تھے
وَاسُتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاء مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوَءًا إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
تشریح آیت ۲۵: وَاسْتَبَقَا الْبَابَ: « اور وہ دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف دوڑے»
یعنی حضرت یوسف نے جب دیکھا کہ اس عورت کی نیت خراب ہے اور اس پر شیطنت کا بھوت سوار ہے تو آپ اس سے بچنے کے لیے دروازے کی طرف لپکے اور آپ کے پیچھے وہ بھی بھاگی تا کہ آپ کو قابو کر سکے۔
وَقَدَّتْ قَمِیْصَہ مِنْ دُبُر: « اور پھاڑ دی اس (عورت) نے آپ کی قمیص پیچھے سے»
آپ کو دوڑتے ہوئے دیکھ کر اس عورت نے آپ کی طرف تیزی سے لپک کر پیچھے سے آپ کو پکڑنے کی کوشش کی تو آپ کی قمیص اس کے ہاتھ میں آ کر پھٹ گئی۔
وَّاَلْفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الْبَابِ: « اور پایا ان دونوں نے اس کے خاوند کو دروازے کے پاس۔»
اس عورت نے لازماً ایسے وقت کا انتخاب کیا ہو گا جب اس کا خاوند گھر سے باہر تھا اور اس کے جلد گھر آنے کا امکان نہیں تھا، مگر جونہی وہ دونوں آگے پیچھے دروازے سے باہر نکلے تو غیر متوقع طور پر اس کا خاوند عین دروازے پر کھڑا تھا۔
قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ اَرَادَ بِاَہْلِکَ سُوْٓءًا اِلَّآ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ: « وہ (فوراً) بولی کیا سزا ہونی چاہیے ایسے شخص کی جس نے ارادہ کیا تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا، سوائے اس کے کہ اسے جیل بھیج دیا جائے یا کوئی اور درد ناک سزا دی جائے!»
اپنے خاوند کو دیکھتے ہی اس عورت نے فوراً پینترا بدلا اور اس کی غیرت کو للکارتے ہوئے بولی کہ اس لڑکے نے مجھ پر دست درازی کی ہے اور میں نے بڑی مشکل سے خود کو بچایا ہے۔ اب اس سے آپ ہی سمجھیں اور اسے کوئی عبرت ناک سزا دیں۔
اور دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف دوڑے، اور (اس کشمکش میں ) اُس عورت نے اُن کے قمیض کو پیچھے کی طرف سے پھاڑ ڈالا۔ اتنے میں دونوں نے اُس عورت کے شوہر کو دروازے پر کھڑا پایا۔ اُس عورت نے فوراً (بات بنانے کیلئے اپنے شوہر سے) کہا کہ : ’’ جوکوئی تمہاری بیوی کے ساتھ بُرائی کا ارادہ کرے، اُس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ اُسے قید کر دیا جائے، یا کوئی اور دردناک سزا دی جائے ؟ ‘‘
قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الكَاذِبِينَ
تشریح آیت ۲۶: قَالَ ہِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ: « آپ نے فرمایا کہ اسی نے مجھے پھسلانا چاہا تھا»
صورتِ حال بہت نازک اور خطرناک رخ اختیار کرچکی تھی۔ حضرت یوسف کو بھی اپنے دفاع میں کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا۔ لہٰذا آپ نے صاف صاف بتا دیا کہ خود اس عورت نے مجھے گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَہْلِہَا: « اور گواہی دی عورت کے خاندان والوں میں سے ایک گواہ نے۔»
اس عورت کے اپنے رشتہ داروں میں سے بھی کوئی شخص موقع پر آ پہنچا۔ اس نے موقع محل دیکھ کر وقوعہ کے بارے میں بڑی مدلل اور خوبصورت قرائنی شہادت (circumstancial evidence) دی کہ:
اِنْ کَانَ قَمِیْصُہ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ: « اگر تو اس کی قمیص پھٹی ہے سامنے سے، تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے۔»
اگر عورت سے دست درازی کی کوشش ہو رہی تھی اور وہ اپنا تحفظ کر رہی تھی تو ظاہر ہے کہ حملہ آور کی قمیص سامنے سے پھٹنی چاہیے۔
یوسف نے کہا : ’’ یہ خود تھیں جو مجھے ورغلا رہی تھیں ۔ ‘‘ اور اُس عورت کے خاندان ہی میں سے ایک گواہی دینے والے نے یہ گواہی دی کہ : ’’ اگر یوسف کی قمیض سامنے کی طرف سے پھٹی ہو تو عورت سچ کہتی ہے، اور وہ جھوٹے ہیں
وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِن الصَّادِقِينَ
تشریح آیت ۲۷: وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ: « اور اگر اس کی قمیص پھٹی ہے پیچھے سے، تو پھر یہ جھوٹی ہے اور وہ سچاہے۔»
اس عادلانہ اور حکیمانہ گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اس معاشرے میں بہت سی خرابیاں تھیں (جن میں سے کچھ کا ذکر آگے آئے گا) وہاں اس گواہی دینے والے شخص جیسے حق گو اور انصاف پسند لوگ بھی موجود تھے جس نے قرابت دار ہوتے ہوئے بھی حق اور انصاف کی بات کی۔
اور اگر ان کی قمیض پیچھے کی طرف سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹ بولتی ہے، اور یہ سچے ہیں ۔ ‘‘
فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ
تشریح آیت ۲۸: فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَہ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہ مِنْ کَیْدِکُنَّ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ: « پھر جب اس (عزیز مصر) نے دیکھا کہ آپ کی قمیص پھٹی ہو ئی ہے پیچھے سے، تو اس نے کہا کہ یہ تم عورتوں کی چالوں میں سے (ایک چال ) ہے، یقینا تم عورتوں کے فریب بہت بڑے ہوتے ہیں۔»
پھر عزیز مصر نے حضرت یوسف سے کہا:
پھر جب شوہر نے دیکھا کہ ان کی قمیض پیچھے سے پھٹی ہے تو اُس نے کہا کہ : ’’ یہ تم عورتوں کی مکاری ہے، واقعی تم عورتوں کی مکاری بڑی سخت ہے
يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ
تشریح آیت ۲۹: یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا: « یوسف! اس معاملے سے درگزر کرو۔»
اس کے بعد وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا اور بولا:
وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخٰطِئِیْنَ: « اور تم اپنے گناہ کی معافی مانگو، یقینا قصور وار تم ہی ہو۔»
یوسف ! تم اس بات کا کچھ خیال نہ کرو، اور اے عورت ! تواپنے گناہ کی معافی مانگ، یقینی طور پر توہی خطاکار تھی۔ ‘‘
وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ
تشریح آیت ۳۰: وَقَالَ نِسْوَۃٌ فِی الْْمَدِیْنَۃِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتٰٰہَا عَنْ نَّفْسِہ: « اور شہر میں عورتوں نے (اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے) کہا کہ عزیز کی بیوی تو اپنے غلام کو پھسلا رہی ہے۔»
قَدْ شَغَفَہَا حُبًّا: « وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے۔،،
اِنَّا لَنَرٰہَا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ: « یقینا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بہت بھٹک گئی ہے۔»
اس کا اپنے غلام کے ساتھ اس طرح کا معاملہ! یہ تو بہت ہی گھٹیا بات ہے!
اور شہر میں کچھ عورتیں یہ باتیں کرنے لگیں کہ : ’’ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کو ورغلا رہی ہے، اس نوجوان کی محبت نے اُسے فریفتہ کر لیا ہے۔ ہمارے خیال میں تو یقینی طور پر وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ ‘‘
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ
تشریح آیت ۳۱: فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِہِنَّ: «پھر جب اُس نے سنیں ان کی مکارانہ باتیں »
عزیز مصر کی بیوی نے جب سنا کہ شہر میں اس کے خلاف اس طرح کے چرچے ہو رہے ہیں اور مصر کی عورتیں ایسی طعن آمیز باتیں کر رہی ہیں تو اس نے بھی جوابی کارروائی کا منصوبہ بنا لیا۔ یہ اس معاشرے کے انتہائی اعلیٰ سطح کے لوگوں کی بات تھی اور اس کا چرچا بھی اسی سطح پر ہو رہا تھا۔ اُسے بھی اپنے ارد گرد سب لوگوں کے کردار کا پتا تھا، کہاں کیا خرابی ہے اور کس کے ہاں کتنی گندگی ہے وہ سب جانتی تھی۔ چنانچہ اس نے اس اعلیٰ سوسائٹی کے اجتماعی کردار کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
اَرْسَلَتْ اِلَیْہِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَہُنَّ مُتَّکَاً: « اُس نے دعوت دی اُن سب کو اور اہتمام کیا ایک تکیہ دار مجلس کا»
اُس نے کھانے کی ایک ُپر تکلف تقریب کا اہتمام کیا جس میں مہمان عورتوں کے لیے گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے۔
وَّاٰتَتْ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنْہُنَّ سِکِّیْنًا: « اور ان میں سے ہر عورت کو اُس نے ایک چھری دے دی»
کھانے کی چیزوں میں پھل وغیرہ بھی ہوں گے، چنانچہ ہر مہمان عورت کے سامنے ایک ایک چھری بھی رکھ دی گئی۔
وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْہِنَّ: « اور (یوسف سے) کہا کہ اب تم ان کے سامنے آؤ!»
فَلَمَّا رَاَیْنَہ اَکْبَرْنَہ: « پھر جب انہوں نے یوسف کو دیکھا تو اسے بہت عظیم جانا (ششدر
رہ گئیں )»
وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ: « اور ان سب نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے»
عورتوں نے جب پاکیزگی اور تقدس کا پیکر ایک جوانِ رعنا اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو مبہوت ہو کر رہ گئیں۔ سب کی سب آپ کے حسن و جمال پر ایسی فریفتہ ہوئیں کہ اپنے اپنے ہاتھ زخمی کر لیے۔ ممکن ہے کسی ایک عورت کا ہاتھ تو واقعی عالم حیرت و محویت میں کٹ گیا ہو اور اس کی طرف حضرت یوسف بحیثیت خادم کے متوجہ ہوئے ہوں کہ خون صاف کر کے پٹی وغیرہ کر دیں اور یہ دیکھ کر باقی سب نے بھی اپنی اپنی انگلیاں دانستہ کاٹ لی ہوں کہ اس طرح یہی التفات انہیں بھی ملے گا۔ قَطَّعَ: باب ِتفعیل ہے، جس میں کسی کام کو پورے اہتمام اور ارادے سے کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔
وَقُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا اِنْ ہٰذَآ اِلاَّ مَلَکٌ کَرِیْمٌ: « اور وہ پکار اٹھیں کہ حاشا للہ یہ کوئی آدمی تو نہیں ! یہ تو کوئی بہت بزرگ فرشتہ ہے۔»
چنانچہ جب اُس (عزیز کی بیوی) نے ان عورتوں کے مکر کی یہ بات سنی تو اُس نے پیغام بھیج کر اُنہیں (اپنے گھر) بلوالیا، اور اُن کیلئے ایک تکیوں والی نشست تیار کی، اور اُن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چاقو دے دیا، اور (یوسف سے) کہا کہ : ’’ ذرا باہر نکل کر ان کے سامنے آجاؤ۔ ‘‘ اب جو ان عورتوں نے یوسف کو دیکھا تو انہیں حیرت انگیز (حد تک حسین) پایا، اور (اُن کے حسن سے مبہوت ہو کر) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے، اور بول اُٹھیں کہ : ’’ حاشاﷲ ! یہ شخص کوئی انسان نہیں ہے، ایک قابلِ تکریم فرشتے کے سوا یہ کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
قَالَتْ فَذَلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسَتَعْصَمَ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ
تشریح آیت ۳۲: قَالَتْ فَذٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْہِ: « تو اس عورت نے کہا کہ یہ ہے وہ جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کر رہی تھیں۔»
وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہ عَنْ نَّفْسِہ فَاسْتَعْصَمَ: « اور یقینا میں نے اسے پھسلانا چاہا تھا لیکن وہ بچا رہا۔»
وَلَئِنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَآ اٰمُرُہ لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِیْنَ: « اور اگر اس نے وہ نہ کیا جو میں اسے حکم دے رہی ہوں تو وہ لازماً قید میں پڑے گا اور ضرور ذلیل ہو کر رہے گا۔»
اس عورت کا دھڑلے سے خصوصی دعوت کا اہتمام کرنا اور اس میں سب کو فخر سے بتانا کہ دیکھ لو یہ ہے و ہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں، اور پھر پوری بے حیائی سے اعلان کرنا کہ ایک دفعہ تو یہ مجھ سے بچ گیا ہے مگر کب تک؟ آخر کار اسے میری بات ماننا ہوگی! اس سے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان کی اس انتہائی اونچی سطح کی سوسائٹی کی مجموعی طور پر اخلاقی حالت کیا تھی!
عزیز کی بیوی نے کہا : ’’ اب دیکھو ! یہ ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم نے مجھے طعنے دیئے تھے ! یہ بات واقعی سچ ہے کہ میں نے اپنا مطلب نکالنے کیلئے اس پر ڈورے ڈالے، مگر یہ بچ نکلا۔ اور اگر یہ میرے کہنے پر عمل نہیں کرے گا تو اسے قید ضرور کیا جائے گا، اور یہ ذلیل ہو کر رہے گا۔ ‘‘
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ
تشریح آیت ۳۳: قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ: « یوسف نے دعا کی: اے میرے پروردگار! مجھے قید زیادہ پسند ہے اُس چیز سے جس کی طرف یہ مجھے بلا رہی ہیں۔»
وَاِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَہُنَّ اَصْبُ اِلَیْہِنَّ وَاَکُنْ مِّنَ الْجٰہِلِیْنَ: « اور اگر ُتو نے مجھ سے دور نہ کر دیا ان کی چالوں کو تو (ہو سکتا ہے) میں بھی ان کی طرف مائل ہو جاؤں اور جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔»
یوسف نے دعا کی کہ : ’’ یا رَبّ ! یہ عورتیں مجھے جس کام کی دعوت دے رہی ہیں ، اُس کے مقابلے میں قید خانہ مجھے زیادہ پسند ہے۔ اور اگر تونے مجھے ان کی چالوں سے محفوظ نہ کیا تو میرا دل بھی اُن کی طرف کھینچنے لگے گا، اور جو لوگ جہالت کے کام کرتے ہیں ، اُن میں میں بھی شامل ہو جاؤں گا۔ ‘‘
فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
تشریح آیت ۳۴: فَاسْتَجَابَ لَہ رَبُّہ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَہُنَّ اِنَّہ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ: « تو آپ کے رب نے آپ کی دعا قبول کر لی اوراُن عورتوں کی چالوں کو آپ سے پھیر دیا۔ یقینا وہی ہے سننے والا، جاننے والا۔»
چنانچہ یوسف کے رَبّ نے ان کی دُعا قبول کی، اور ان عورتوں کی چالوں سے اُنہیں محفوظ رکھا۔ بیشک وہی ہے جو ہر بات سننے والا، ہر چیز جاننے والا ہے
ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُاْ الآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ
تشریح آیت ۳۵: ثُمَّ بَدَا لَہُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّہ حَتّٰی حِیْنٍ : « پھر اُن لوگوں کو یہ بات سوجھی ساری نشانیاں دیکھ لینے کے بعد کہ اس کو کچھ عرصہ کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے۔»
اس تقریب میں جو کچھ ہوا اس معاملے کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں تھا، چنانچہ ارباب ِاختیار نے جب یہ سارے حالات دیکھے تو انہیں عافیت اور مصلحت اسی میں نظر آئی کہ حضرت یوسف کو وقتی طور پر منظر سے ہٹا دیا جائے اور اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ کچھ عرصے کے لیے انہیں جیل میں ڈال دیا جائے۔
پھر ان لوگوں نے (یوسف کی پاکدامنی کی) بہت سی نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی مناسب یہی سمجھا کہ اُنہیں ایک مدت تک قید خانے بھیج دیں
وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانَ قَالَ أَحَدُهُمَآ إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
تشریح آیت ۳۶: وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ: « اور داخل ہوئے آپ کے ساتھ جیل میں دو نوجوان۔»
جب حضرت یوسف کو جیل بھیجا گیا تو اتفاقاً اسی موقع پر دو اور قیدی بھی آپ کے ساتھ جیل میں داخل کیے گئے۔
قَالَ اَحَدُہُمَآ اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا: « ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں۔»
وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْہُ: « اور دوسرے نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں۔»
نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِہ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ: « ہمیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دیجیے، ہم آپ کوبہت نیکوکار دیکھتے ہیں۔»
ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ دوسرے قیدیوں سے بالکل مختلف ہیں۔ آپ اعلیٰ اخلاق اور قابل ِرشک کردار کے مالک ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ آپ ہمارے خوابوں کے سلسلے میں ضرور ہماری راہنمائی فرمائیں گے۔
اور یوسف کے ساتھ دو اور نوجوان قید خانے میں داخل ہوئے۔ اُن میں سے ایک نے (ایک دن یوسف سے) کہا کہ : ’’ میں (خواب میں ) اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہاہوں ۔ ‘‘ اور دوسرے نے کہا کہ : ’’ میں (خواب میں ) یوں دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے سر پر روٹی اُٹھائی ہوئی ہے، (اور) پرندے اُ س میں سے کھا رہے ہیں ۔ ذرا ہمیں اس کی تعبیر بتاؤ، ہمیں تم نیک آدمی نظر آتے ہو۔ ‘‘
قَالَ لاَ يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلاَّ نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيكُمَا ذَلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُم بِالآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
تشریح آیت ۳۷: قَالَ لاَ یَاْ تِیْکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٓ اِلاَّ نَبَّاْتُکُمَا بِتَاْوِیْلِہ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَکُمَا: « یوسف نے فرمایا کہ تم لوگوں کو جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے آنے سے پہلے پہلے میں تم دونوں کو اس کی تعبیر بتا دوں گا۔»
جیل میں قیدیوں کے کھانے کے اوقات مقرر ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ اب تعبیر کے بارے میں فکر مت کرو، وہ تو میں کھانا آنے سے پہلے پہلے آپ لوگوں کو بتا دوں گا، لیکن میں تم لوگوں سے اس کے علاوہ بھی بات کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا اِس وقت تم لوگ میری بات سنو۔ حضرت یوسف کا یہ طریقہ ایک داعی ٔحق کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ایک داعی کی ہر وقت یہ کوشش ہونی چاہیے کہ تبلیغ کے لیے، حق بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے جب اور جہاں موقع میسر آئے اس سے فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ حضرت یوسف نے دیکھا کہ لوگ میری طرف خود متوجہ ہوئے ہیں تو آپ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کی حاجت کو مؤخر کرکے پہلے انہیں پیغامِ حق پہنچانا ضروری سمجھا۔
ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ: « یہ اُس علم میں سے ہے جو میرے ربّ نے مجھے سکھایا ہے۔»
آپ نے انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی بات شروع کی اور خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا، کہ یہ علم مجھے میرے رب نے سکھایا ہے، اس میں میرا اپنا کوئی کمال نہیں ہے۔
اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ: «(دیکھو!) میں نے ترک کر دیا ہے اُس قوم کا راستہ جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے یہی لوگ منکر ہیں۔»
یوسف نے کہا : ’’ جو کھانا تمہیں (قید خانے میں ) دیا جاتا ہے وہ ابھی آنے نہیں پائے گا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت بتا دوں گا۔ یہ اُس علم کا ایک حصہ ہے جو میرے پروردگار نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ (مگر اس سے پہلے میری ایک بات سنو) بات یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا دین چھوڑ دیا ہے جو اﷲ پر اِیمان نہیں رکھتے، اور جو آخرت کے منکر ہیں
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَآئِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّهِ مِن شَيْءٍ ذَلِكَ مِن فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ
تشریح آیت ۳۸: وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ: « اور میں نے پیروی کی ہے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے طریقے کی۔»
آپ کی اس بات سے موروثی اور شعوری عقائد کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی ایک تو وہ عقائد و نظریات ہیں جو بچہ اپنے والدین سے اپناتا ہے، جیسے ایک مسلمان گھرانے میں بچے کو موروثی طور پر اسلام کے عقائد ملتے ہیں۔ اللہ اور رسول کا نام وہ بچپن ہی سے جانتا ہے، ابتدائی کلمے اس کو پڑھا دیے جاتے ہیں، نماز بھی سکھا دی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ شعورکی عمرکو پہنچنے کے بعد اپنے آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں اپنے علم اور غوروفکر سے کوئی عقیدہ اختیار کرے گا تو وہ اس کا شعوری عقیدہ ہو گا۔ چنانچہ حضرت یوسف نے اپنے اس شعوری عقیدے کا ذکر کیا کہ اگرچہ وہ جن لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں، وہ اللہ، اس کے کسی نبی اور وحی وغیرہ کے تصورات سے نابلد ہیں، سب کے سب کافر اور مشرک ہیں، مگر مجھے دیکھو میں نے اس ماحول کا اثر قبول نہیں کیا، اپنے ارد گرد کے لوگوں کے نظریات وعقائد نہیں اپنائے، بلکہ پورے شعور کے ساتھ اپنے آباء و اَجداد کے نظریات کو صحیح مانتے ہوئے ان کی پیروی کر رہا ہوں، صرف اس لیے نہیں کہ وہ میرے آباء و اَجداد تھے، بلکہ اس لیے کہ یہی راستہ میرے نزدیک معقول اور عقل سلیم کے قریب تر ہے۔
مَا کَانَ لَـنَـآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ: «(دیکھو!) ہمارے لیے یہ روا نہیں ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی بھی شے کو شریک کریں۔»
ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ: « یہ اللہ کا بڑا فضل ہے ہم پر اور سب لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔»
یعنی شرک سے بچنے اور توحید کو اپنانے کا عقیدہ دراصل اللہ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا فضل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس حیثیت میں انسان کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کی پرستش کرتا پھرے جنہیں خود اس کی خدمت اور استفادے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ اﷲ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک ٹھہرائیں ۔ یہ (توحید کا عقیدہ) ہم پر اور تمام لوگوں پر اﷲ کے فضل کا حصہ ہے، لیکن اکثر لوگ (اس نعمت کا) شکر ادا نہیں کرتے
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
تشریح آیت ۳۹: یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ: «اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو! کیا بہت سے متفرق ربّ بہتر ہیں یا اکیلا اللہ سب پر حاوی و غالب؟»
اے میرے قید خانے کے ساتھیو ! کیا بہت سے متفرق رَبّ بہتر ہیں ، یا وہ ایک اﷲ جس کا اِقتدار سب پر چھایا ہوا ہے ؟
مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلاَّ أَسْمَاء سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَآؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ
تشریح آیت ۴۰: مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٓ اِلآَّ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَا اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ: «نہیں پوجتے تم اُس (اللہ) کے سوا مگر چند ناموں کو جو موسوم کر رکھے ہیں تم لوگوں نے اور تمہارے آباء و اَجداد نے»
مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ: « نہیں اتاری اللہ نے ان کے لیے کوئی سند۔اختیارِ مطلق تو صرف اللہ ہی کاہے۔»
قانون بنانے اور اس کے مطابق حکم چلانے کا اختیار صرف اللہ کا ہے۔
اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ: « اُس نے حکم دیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی بندگی مت کرو!»
ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ: « یہی ہے دین سیدھا (اور ہمیشہ سے قائم و دائم) لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔»
اُس کے سوا جس جس کی تم عبادت کرتے ہو، اُن کی حقیقت چند ناموں سے زیادہ نہیں ہے جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لئے ہیں ۔ اﷲ نے اُن کے حق میں کوئی دلیل نہیں اُتاری۔ حاکمیت اﷲ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اُسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
تشریح آیت ۴۱: یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہ خَمْرًا: « اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔»
یہاں پر رب کا لفظ بادشاہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہ اس شخص کے خواب کی تعبیر ہے جس نے خود کو شراب کشید کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ شخص پہلے بھی بادشاہ کا ساقی تھا مگر اس پر کوئی الزام لگا اور اسے جیل بھیج دیا گیا۔ حضرت یوسف نے خبر دے دی کہ اس کے خواب کے مطابق وہ اس الزام سے بری ہو کر اپنے پرانے عہدے پر بحال ہو جائے گا۔
وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِہ: « اور جو دوسرا ہے اُسے سولی دے دی جائے گی اور پرندے اُس کے سر میں سے (نوچ نوچ کر) کھائیں گے۔»
قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْہِ تَسْتَفْتِیٰنِ: « فیصلہ کر دیا گیا ہے اُس معاملے کا جس کے بارے میں تم دونوں مجھ سے پوچھ رہے تھے۔»
اے میرے قید خانے کے ساتھیو! (اب اپنے خوابوں کی تعبیر سنو) تم میں سے ایک کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ (قید سے آزاد ہو کر) اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ رہا دوسرا، تو اُسے سولی دی جائے گی، جس کے نتیجے میں پرندے اُس کے سر کو (نوچ کر) کھائیں گے۔ جس معاملے میں تم پو چھ رہے تھے، اُ س کا فیصلہ (اسی طرح) ہو چکا ہے۔ ‘‘
وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
تشریح آیت ۴۲: وَقَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّہ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ: « اور یوسف نے کہا اُس شخص سے جس کے بارے میں آپ نے گمان کیا کہ وہ ان دونوں میں سے نجات پائے گا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر بھی کرنا۔»
یعنی تمہیں کبھی موقع ملے تو بادشاہ کو بتانا کہ جیل میں ایک ایسا قیدی بھی ہے جس کا کوئی قصور نہیں اور اسے خواہ مخواہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّہ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ : « تو اُسے بھلائے رکھا شیطان نے ذکر کرنا اپنے آقا سے، تو آپ رہے جیل میں کئی برس تک۔»
بِضْع: کا لفظ عربی زبان میں دو سے لے کر نو تک (دس سے کم) کی تعداد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اور ان دونوں میں سے جس کے بارے میں اُن کا گمان تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا، اُس سے یوسف نے کہا کہ : ’’ اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کردینا۔ ‘‘ پھر ہوا یہ کہ شیطان نے اُس کو یہ بات بھلا دی کہ وہ اپنے آقا سے یوسف کا تذکرہ کرتا۔ چنانچہ وہ کئی برس قید خانے میں رہے
وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ يَا أَيُّهَا الْمَلأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ
تشریح آیت ۴۳: وَقَالَ الْمَلِکُ اِنِّیْٓ اَرٰی سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ: « اور بادشاہ نے کہا کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں، جن کو کھا رہی ہیں سات دبلی گائیں».
اب یہاں سے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ اُس وقت مصر پر فراعنہ کی حکومت نہیں تھی، بلکہ وہاں چرواہے بادشاہ (Hyksos Kings) حکمران تھے۔ تاریخ میں اکثر ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کچھ صحرائی قبیلوں نے قوت حاصل کر کے متمدن علاقوں پر چڑھائی کی، پھر یا تو وہ لوٹ مار کر کے واپس چلے گئے یا اُن علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔ ایسی ہی ایک مثال مصر کے چرواہے بادشاہوں کی ہے جو صحرائی قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کسی زمانے میں مصر پر حملہ کیا اور مقامی لوگوں (قبطی قوم) کو غلام بنا کر وہاں اپنی حکومت قائم کر لی۔ یہاں جس بادشاہ کا ذکر ہے وہ اسی خاندان سے تھا۔ اس بادشاہ کے کردار اور رویے کی جو جھلک اس قصے میں دکھائی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ توحید و رسالت سے نا بلد تھا مگر ایک نیک سرشت انسان تھا۔
وَّسَبْعَ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ یٰبِسٰتٍ: « اور سات بالیاں ہیں ہری اور دوسری (سات) خشک۔»
یٰٓــاَ یُّہَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِـیْ فِیْ رُؤْیَایَ اِنْ کُنْتُمْ لِلرُّؤْیَا تَعْبُرُوْنَ: « تو اے میرے درباریو! مجھے بتاؤ تعبیر میرے خواب کی اگر تم لوگ خوابوں کی تعبیر کر سکتے ہو۔»
اور (چند سال بعد مصر کے) بادشاہ نے (اپنے درباریوں سے) کہا کہ : ’’ میں (خواب میں ) دیکھتا ہوں کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دُبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں ، نیز سات خوشے ہرے بھرے ہیں ، اور سات اور ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں ۔ اے درباریو ! اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کا مطلب بتاؤ۔ ‘‘
قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الأَحْلاَمِ بِعَالِمِينَ
تشریح آیت ۴۴: قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلاَمٍ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلاَمِ بِعٰلِمِیْنَ: « انہوں نے کہا کہ یہ تو پریشان خیالات ہیں، اور ایسے خوابوں کی تعبیر ہم نہیں جانتے۔»
بادشاہ کے خواب کو سن کر انہوں نے جواب دیا کہ یہ کوئی معنوی خواب نہیں، ایسے ہی بے معنی اور منتشر قسم کے خیالات ہیں جن کی ہم کوئی تعبیر نہیں کر سکتے۔ فرائڈ کا بھی یہی خیال ہے کہ خواب میں انسان اپنے شہوانی خیالات اور دوسری دبی ہوئی نفسانی خواہشات کی تسکین کرنا چاہتا ہے، مگر اسلامی نکتہ نظر سے خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم «رویائے صادقہ» کی ہے یعنی سچے خواب، یہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور ایسے خوابوں کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ یہ نبوت کے اجزاء میں سے ہیں۔ دوسری قسم کے خواب وہ ہیں جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان میں بعض اوقات شیاطین ِجن اپنی طرف سے خیالات انسانوں کے ذہنوں میں الہام بھی کرتے ہیں۔ تیسری قسم کے خواب وہ ہیں جن کا ذکر فرائڈ نے کیا ہے۔ یعنی انسان کے اپنے ہی خیالات منتشر انداز میں مختلف وجوہات کی بنا پر سوتے وقت انسان کے ذہن میں آتے ہیں اور ان میں کوئی معنی یا ربط ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ : ’’ یہ پریشان قسم کے خیالات (معلوم ہوتے) ہیں ، او ر ہم خوابوں کی تعبیر کے علم سے واقف (بھی) نہیں ۔ ‘‘
وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَاْ أُنَبِّئُكُم بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ
تشریح آیت ۴۵: وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْہُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ: « اور کہا اُس شخص نے جو اُن دونوں (قیدیوں ) میں سے نجات پا گیا تھا اور ایک طویل عرصے کے بعد اسے (اچانک) یاد آ گیا»
وہ شخص جیل سے رہا ہو کر پھر سے ساقی گری کر رہا تھا۔ اسے بادشاہ کے خواب کے ذکر سے اچانک حضرت یوسف یاد آ گئے کہ ہاں جیل میں ایک شخص ہے جو خوابوں کی تعبیر بتانے میں بڑا ماہر ہے۔
اَنَا اُنَبِّئُکُمْ بِتَاْوِیْلِہ فَاَرْسِلُوْنِ: « (اس نے کہا) میں بتا دوں گا تم لوگوں کو اس کی تعبیر، بس مجھے ذرا (قید خانے میں یوسف کے پاس) بھیج دیں۔»
اس طرح وہ شخص جیل میں حضرت یوسف کے پاس پہنچ کر آپ سے مخاطب ہوا:
اور ان دو قیدیوں میں سے جو رہا ہو گیا تھا، اور اُسے ایک لمبے عرصے کے بعد (یوسف کی) بات یاد آئی تھی، اُس نے کہا کہ : ’’ میں آپ کو اس خواب کی تعبیر بتائے دیتا ہوں ، بس مجھے (یوسف کے پاس قید خانے میں ) بھیج دیجئے۔ ‘‘
يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ
تشریح آیت ۴۶: یُوْسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ یٰبِسٰتٍ: «اے یوسف! اے راست باز! ہمیں تعبیر بتائیے سات موٹی گائیوں کے بارے میں کہ انہیں کھا رہی ہیں سات دبلی، اور سات سبز بالیوں اور دوسری (سات) خشک بالیوں کے بارے میں»
لَّعَلِّیْٓ اَرْجِعُ اِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَعْلَمُوْنَ: « تا کہ میں واپس جاؤں (تعبیر لے کر) اُن لوگوں کے پاس، تا کہ انہیں بھی معلوم ہو جائے۔»
(چنانچہ اُس نے قید خانے میں پہنچ کر یوسف سے کہا :) ’’ یوسف ! اے وہ شخص جس کی ہر بات سچی ہوتی ہے ! تم ہمیں اس (خواب) کا مطلب بتاؤ کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دُبلی پتلی گائیں کھار ہی ہیں ، اور سات خوشے ہر ے بھرے ہیں ، اور دوسرے سات او ر ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں ۔ شاید میں لوگوں کے پاس واپس جاؤں (اور انہیں خواب کی تعبیر بتاؤں ) تاکہ وہ بھی حقیقت جان لیں ۔ ‘‘
قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدتُّمْ فَذَرُوهُ فِي سُنبُلِهِ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّا تَأْكُلُونَ
تشریح آیت ۴۷: قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَ بًا: «یوسف نے (تعبیر بتاتے ہوئے) فرمایاکہ تم سات سال تک خوب زراعت کرو گے لگا تار۔»
فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِیْ سُنْبُلِہٓ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّا تَاْکُلُوْنَ: « تو (اس دوران میں) جوفصل بھی تم کاٹو اُسے رہنے دینا اس کی بالیوں ہی میں، سوائے اُس قلیل تعداد کے جو تم کھاؤ۔»
آپ نے صرف اس خواب کی تعبیر ہی نہیں بتائی بلکہ مسئلے کی تدبیر بھی بتا دی اور تدبیر بھی ایسی جو شاہی مشیروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی تھی۔ آج کے سائنسی تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اناج کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے سٹوں کے اندر ہی رہنے دیا جائے اور ان سٹوں کو محفوظ کر لیا جائے۔ اس طرح سے اناج خراب نہیں ہوتا اور اسے کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے کسی اضافی preservative کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
یوسف نے کہا : ’’ تم سات سال تک مسلسل غلہ زمین میں اُگاؤ گے۔ اس دوران جو فصل کاٹو، اُس کو اُس کی بالیوں ہی میں رہنے دینا، البتہ تھوڑا سا غلہ جو تمہارے کھانے کے کام آئے، (وہ نکال لیا کرو۔)
ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّا تُحْصِنُونَ
تشریح آیت ۴۸: ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ سَبْعٌ شِدَادٌ: « پھر اس کے بعد سات سال آئیں گے بہت سخت»
خوشحالی کے سات سالوں کے بعد سات سال تک خشک سالی کا سماں ہو گا جس کی وجہ سے ملک میں شدید قحط پڑ جائے گا۔
یَّاْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَہُنَّ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ: « وہ (سات سال) چٹ کر جائیں گے اس کو جو کچھ تم نے ان کے لیے بچا رکھا ہو گا سوائے اُس کے جو تم (بیج کے لیے) محفو ظ کر لو گے۔»
حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تک ملک میں بہت خوشحالی ہو گی، فصلیں بہت اچھی ہوں گی، مگر ان سات سالوں کے بعد سات سال ایسے آئیں گے جن میں خشک سالی کے سبب شدید قحط پڑجائے گا۔ اس مسئلے کی تدبیر آپ نے یہ بتائی کہ پہلے سات سال کے دوران صرف ضرورت کا اناج استعمال کرنا، اور باقی ِسٹوں کے اندر ہی محفوظ کرتے جانا اور جب قحط کا زمانہ آئے تو ان سٹوں سے نکال کر بقدرِ ضرورت اناج استعمال کرنا۔
پھر اس کے بعد تم پر سات سال ایسے آئیں گے جو بڑے سخت ہوں گے، اور جو کچھ ذخیرہ تم نے ان سالوں کے واسطے جمع کر رکھا ہو گا، اُ س کو کھا جائیں گے، ہاں البتہ تھوڑا سا حصہ جو تم محفوظ کر سکو گے، (صرف وہ بچ جائے گا)
ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ
تشریح آیت ۴۹: ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیْہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیْہِ یَعْصِرُوْنَ: « پھر آئے گا اس کے بعد ایک سال کہ اس میں خوب بارشیں ہوں گی لوگوں پر اور اس میں وہ (انگور کا) رس نچوڑیں گے۔»
جب خوب بارشیں ہوں گی تو انگور کی بیلیں خوب پھلیں پھولیں گی، انگور کی پیداوار بھی خوب ہو گی، لوگ خوب انگور نچوڑ یں گے اور شراب کشید کریں گے۔
پھر اُس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں پر خوب بارش ہوگی، اور وہ اس میں انگور کا شیرہ نچوڑیں گے۔ ‘‘
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
تشریح آیت ۵۰: وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہ: «(یہ سن کر) بادشاہ نے کہا کہ اُس شخص کو میرے پاس لے آؤ!»
بادشاہ اپنے خواب کی تعبیر اور پھر اس کی ایسی اعلیٰ تدبیر سن کر یقینا بہت متاثر ہوا ہو گا اور اس نے سوچا ہو گا کہ ایسے ذہین، فطین شخص کو جیل میں نہیں بلکہ بادشاہ کا مشیر ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اس قیدی کو فوراً میرے پاس لے کر آؤ۔
فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ: «پھر جب آیا آپ کے پاس ایلچی، تو آپ نے فرمایا کہ تم واپس چلے جاؤ اپنے آقا کے پاس»
بادشاہ کا پیغام لے کر جب قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا کہ میں اس طرح ابھی جیل سے باہر نہیں آنا چاہتا۔ پہلے پورے معاملے کی چھان بین کی جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو اس کی مکمل تفتیش ہو اور اگر میرا کوئی قصور نہیں ہے تو مجھے علی الاعلان بے گناہ اور بری قرار دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اس قاصد سے فرمایا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ:
فَسْئََلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ: «اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟»
اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِہِنَّ عَلِیْمٌ: « یقینا میرا رب ان کی چالوں سے خوب واقف ہے۔»
بادشاہ تک یہ بات پہنچی تو اس نے سب بیگمات کو طلب کر لیا۔
اور بادشاہ نے کہا کہ : ’’ اُس کو (یعنی یوسف کو) میرے پاس لے کر آؤ۔ ‘‘ چنانچہ جب اُن کے پاس ایلچی پہنچا تو یوسف نے کہا : ’’ اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ، اور اُن سے پوچھو کہ اُن عورتوں کا کیا قصہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ میرا پروردگار ان عورتوں کے مکر سے خوب واقف ہے۔ ‘‘
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ قَالَتِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ الآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَاْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
تشریح آیت ۵۱: قَالَ مَا خَطْبُـکُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِہ: « اُس نے پوچھا کہ کیا معاملہ تھا تمہارا جب تم سب نے پھسلانا چاہا تھا یوسف کو؟»
قُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوْٓءٍ: « انہوں نے کہا کہ اللہ گواہ ہے، ہمارے علم میں اس کے بارے میں کوئی بھی برائی نہیں ہے۔»
اُس وقت جو کچھ بھی ہوا تھا وہ سب ہماری طرف سے تھا، یوسف کی طرف سے کوئی غلط بات ہم نے محسوس نہیں کی۔
قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْئٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ اَنَا رَاوَدْتُّہ عَنْ نَّفْسِہ وَاِنَّہ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ: « (اس پر ) عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی کہ اب حقیقت تو واضح ہو ہی گئی ہے، میں نے ہی اس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی اور وہ بالکل سچا ہے۔»
اس طرح عزیز کی بیوی کو اس حقیقت کا برملا اظہار کرنا پڑا کہ یوسف نے نہ تو زبان سے کوئی غلط بیانی کی ہے اور نہ ہی اس کے کردار میں کوئی کھوٹ ہے۔
بادشاہ نے (اُن عورتوں کو بلا کر اُن سے) کہا : ’’ تمہارا کیا قصہ تھا جب تم نے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی تھی ؟ ‘‘ ان سب عورتوں نے کہا کہ : ’’ حاشا ﷲ ! ہم کو ان میں ذرا بھی تو کوئی برائی معلوم نہیں ہوئی۔ ‘‘ عزیز کی بیوی نے کہا کہ : ’’ اب تو حق بات سب پر کھل ہی گئی ہے۔ میں نے ہی ان کو ورغلانے کی کوشش کی تھی، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ بالکل سچے ہیں ۔ ‘‘
ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ
تشریح آیت ۵۲: ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ: «یہ اس لیے کہ وہ جان لے کہ میں نے اس کی غیرموجودگی میں اس کی خیانت نہیں کی»
یہ فقرہ سیاق ِعبارت میں کس کی زبان سے ادا ہوا ہے اس کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ اس لیے کہ اس فقرے کے موقع محل اور الفاظ میں متعدد امکانات کی گنجائش ہے۔ ان اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ فقرہ عزیز کی بیوی کی زبان ہی سے ادا ہوا ہے کہ میں نے ساری بات اس لیے سچ سچ بیان کر دی ہے تا کہ یوسف کو معلوم ہو جائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس سے کوئی غلط بات منسوب کر کے اس کی خیانت نہیں کی۔
وَاَنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ کَیْدَ الْخَآئِنِیْنَ: « اور یہ کہ یقینا اللہ خیانت کرنے والوں کی چال کو کامیاب نہیں کرتا۔»
(جب یوسف کوقید خانے میں اس گفتگو کی خبر ملی تو انہوں نے کہا کہ :) ’’ یہ سب کچھ میں نے اس لئے کیا تاکہ عزیز کو یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ میں نے اُس کی غیر موجودگی میں اُس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی، اور یہ بھی کہ جو لوگ خیانت کرتے ہیں ، اﷲ اُن کے فریب کو چلنے نہیں دیتا
وَمَا أُبَرِّىءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تشریح آیت ۵۳: وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓءِ: « اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتی، یقینا (انسان کا) نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے»
اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ:« سوائے اُس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقینا میرا ربّ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والاہے۔»
اگر گزشتہ آیت میں نقل ہونے والے بیان کو عزیز مصر کی بیوی کا بیان مانا جائے تو اس صورت میں آیت زیر نظر بھی اسی کے کلام کا تسلسل قرار پائے گی اور اس کا ترجمہ وہی ہو گا جو اوپر کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ دراصل اس نظریے کے مطابق ہے جس کے تحت ہمارے بہت سے مفسرین اور قصہ گو حضرات نے مائی زلیخا کو ولی اللہ کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ اور کچھ بعید بھی نہیں کہ اس کا عشق مجازی وقت کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی میں تبدیل ہو گیا ہو اور وہ حقیقتاً ہدایت پر آ گئی ہو۔ بہر حال جو لوگ اس بات کو درست تسلیم کرتے ہیں وہ ان آیات کا ترجمہ اسی طرح کرتے ہیں، کیونکہ اس نے اعترافِ جرم کر کے توبہ کرلی تھی اور اس لحاظ سے مذکورہ مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اعترافِ گناہ سے لے کر (آیت: ۵۳) کے اختتام تک اسی کا بیان ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا موقف (جو دورِ حاضر کے زیادہ تر مفسرین نے اختیار کیا ہے) یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی کا بیان اس آیت پر ختم ہو گیا ہے: اَنَا رَاوَدْتُّہ عَنْ نَّفْسِہ وَاِنَّہ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ. اور اس کے بعد حضرت یوسف کا بیان نقل ہوا ہے۔ اس صورت میں آیت: ۵۲ اور ۵۳ کا مفہوم یوں ہو گا کہ جب بادشاہ کی تفتیشی کارروائی اور عزیز مصر کی بیوی کے برملا اعترافِ جرم کے بارے میں حضرت یوسف کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سب کچھ سے میرا یہ مقصود نہیں تھا کہ کسی کی عزت و ناموس کا پردہ چاک ہو، بلکہ میں تو چاہتا تھا کہ عزیز مصر یہ جان لے کہ اگر اس نے مجھے اپنے گھر میں عزت و اکرام سے رکھا تھا اور مجھ پر اعتماد کیا تھا تو میں نے بھی اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی، اور میرا ایمان ہے کہ اللہ خیانت کرنے والوں کوراہ یاب نہیں کرتا۔ باقی میں خود کو بہت پارسا نہیں سمجھتا بلکہ سمجھتا ہوں کہ نفس ِانسانی تو انسان کو برائی پر ابھارتا ہی ہے اور اس کے حملے سے صرف وہی بچ سکتا ہے جس پر میرا رب اپنی خصوصی نظر ِرحمت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری حفاظت کا بھی اگر خصوصی انتظام نہ فرمایا جاتا تو مجھ سے بھی غلطی سرزد ہو سکتی تھی۔ مگر چونکہ میرا رب بخشنے والا بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے اس لیے اس نے مجھ پر اپنی خصوصی رحمت فرمائی۔
اور میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رَبّ رحم فرما دے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا۔) بیشک میرا رَبّ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ‘‘
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مِكِينٌ أَمِينٌ
تشریح آیت ۵۴: وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ: « اور بادشاہ نے (اب فیصلہ کن انداز میں) کہا کہ اُس کو میرے پاس لے آؤ، میں اُسے اپنا مصاحب ِخاص بناؤں گا۔»
فَلَمَّا کَلَّمَہ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ: « تو جب بادشاہ نے آپ سے بات چیت کی توکہا کہ آج کے دن سے آپ ہمارے نزدیک بڑے با عزت اور معتبر انسان ہیں۔»
آج سے آپ کا شمار ہمارے خاص مقربین میں ہو گا اور اس لحاظ سے مملکت کے اندر آپ کا ایک خاص مقام ہو گا۔ آپ کی امانت و دیانت پر ہمیں پورا پورا بھروسا ہے۔
اور بادشاہ نے کہا کہ : ’’ اُس کو میرے پاس لے آؤ، میں اُسے خالص اپنا (معاون) بناؤں گا۔ ‘‘ چنانچہ جب (یوسف بادشاہ کے پاس آگئے، اور) بادشاہ نے اُن سے باتیں کیں تو اُس نے کہا : ’’ آج سے ہمارے پاس تمہارا بڑا مرتبہ ہوگا، اور تم پورا بھروسہ کیا جائے گا۔ ‘‘
قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ
تشریح آیت ۵۵: قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ: « آپ نے فرمایا کہ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیں، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور جاننے والا بھی ہوں۔»
حضرت یوسف جان چکے تھے کہ اس ملک پر بہت بڑی آفت آنے والی ہے اور اگر اس ممکنہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بر وقت درست اور مؤثر اقدام نہ کیے گئے تو نہ صرف خود مصر ایک خوفناک قحط کی زد میں آ جائے گا بلکہ آس پاس کے علاقوں کے لیے بھی بہت بھیانک حالات پیدا ہو جائیں گے۔ اس پورے خطے میں مصر ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں غلہ اور دوسری اشیائے خوراک پیدا ہوتی تھیں۔ اس کے ہمسایہ میں چاروں طرف خشک صحرائی علاقے تھے اور اناج وغیرہ کے سلسلے میں ان علاقوں کا انحصار بھی مصر کی زراعت پر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے موقع دیکھا تو فوراً اپنی خدمات پیش کر دیں کہ اگر خزانے اور خوراک و زراعت کا پورا انتظام وانصرام میرے پاس ہو گا تو میں اس آفت کا سامنا کرنے کے لیے جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کر سکوں گا۔
یوسف نے کہا کہ : ’’ آپ مجھے ملک کے خزانوں (کے انتظام) پر مقرر کر دیجئے۔ یقین رکھئے کہ مجھے حفاظت کرنا خوب آتا ہے، (اور) میں (اس کام کا) پورا علم رکھتا ہوں ۔ ‘‘
وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاء نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاء وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
تشریح آیت ۵۶: وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْہَا حَیْثُ یَشَآءُ: « اور اس طرح ہم نے یوسف کو تمکن عطا کیا (مصر کی) زمین میں، کہ وہ اس میں جہاں چاہے اپنا ٹھکانہ بنا لے۔»
حضرت یوسف کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمکن عطا ہونے کا یہ دوسرا مرحلہ تھا۔ پہلے مرحلے میں آپ کو بدوی اور صحرائی ماحول سے اٹھا کراس دور کے ایک نہایت متمدن ملک کی اعلیٰ ترین سطح کی سوسائٹی میں پہنچایا گیا، جبکہ دوسرے مرحلے میں آپ کو اسی ملک کے اربابِ اختیار و اقتدار کی صف میں ایک نہایت ممتاز مقام عطا کر دیا گیا، جس کے بعد آپ پورے اختیار کے ساتھ عزیز کے عہدے پر متمکن ہو گئے۔
نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَلاَ نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ: « ہم اپنی رحمت سے نوازتے ہیں جس کو چاہتے ہیں اور ہم نیکو کاروں کا اجرضائع نہیں کرتے۔»
اور اس طرح ہم نے یوسف کو ملک میں ایسا اقتدار عطا کیا کہ وہ اُس میں جہاں چاہیں ، اپنا ٹھکا نا بنائیں ۔ ہم اپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں ، پہنچاتے ہیں ، اور نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے
وَلأَجْرُ الآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ
تشریح آیت ۵۷: وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ: « اور آخرت کا اجر تو بہت ہی بہتر ہے ان کے لیے جو ایمان لائیں اور تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھیں۔»
اب یہاں سے آگے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہو نے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ آئندہ رکوع کے مضامین اور گزشتہ مضمون کے درمیان زمانی اعتبار سے تقریباً دس سال کا بُعد ہے۔ اب بات اس زمانے سے شروع ہو رہی ہے جب مصر میں بہتر فصلوں کے سات سالہ دور کے بعد قحط پڑ چکا تھا۔ یہاں پر جو تفصیلات چھوڑ دی گئی ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کی تعبیر کے عین مطابق سات سال تک مصر میں خوشحالی کا دور دورہ رہا اور فصلوں کی پیداوار معمول سے کہیں بڑھ کر ہوئی۔ اس دوران حضرت یوسف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اناج کے بڑے بڑے ذخائر جمع کر لیے تھے۔ چنانچہ جب یہ پورا علاقہ قحط کی لپیٹ میں آیا تو مصر کی حکومت کے پاس نہ صرف اپنے عوام کے لیے بلکہ ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اناج وافر مقدار میں موجود تھا۔ چنانچہ حضرت یوسف نے اس غیر معمولی صورتِ حال کے پیش نظر «راشن بندی» کا ایک خاص نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ایک خاندان کو ایک سال کے لیے صرف اس قدر غلہ دیا جاتا تھا جس قدر ایک اونٹ اٹھا سکتا تھا اور اس کی قیمت اتنی وصول کی جاتی تھی جو وہ آسانی سے ادا کر سکیں۔ ان حالات میں فلسطین میں بھی قحط کا سماں تھا اور وہاں سے بھی لوگ قافلوں کی صورت میں مصر کی طرف غلہ لینے کے لیے آتے تھے۔ ایسے ہی ایک قافلے میں حضرت یوسف کے دس بھائی بھی غلہ لینے مصر پہنچے، جبکہ آپ کا ماں جایا بھائی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ اس لیے کہ حضرت یعقوب اپنے اس بیٹے کو کسی طرح بھی ان کے ساتھ کہیں بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے۔
اور آخرت کا جو اَجر ہے، وہ اُن لوگوں کیلئے کہیں زیادہ بہتر ہے جو اِیمان لاتے اور تقویٰ پر کاربند رہتے ہیں
وَجَاء إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُواْ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ
تشریح آیت ۵۸: وَجَآءَ اِخْوَۃُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ: « اور آئے یوسف کے بھائی اور آپ کے سامنے پیش ہوئے»
فَعَرَفَہُمْ وَہُمْ لَہ مُنْکِرُوْنَ: « تو آپ نے انہیں پہچان لیا مگر وہ آپ کو نہیں پہچان پائے۔»
ان حالات میں یہ امکان ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عزیز مصر جس کے دربار میں اُن کی پیشی ہورہی ہے وہ ان کا بھائی یوسف ہے۔
اور (جب قحط پڑا تو) یوسف کے بھائی آئے، اور اُن کے پاس پہنچے، تو یوسف نے انہیں پہچان لیا، اور وہ یوسف کو نہیں پہچانے
وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ أَلاَ تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَاْ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ
تشریح آیت ۵۹: وَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ قَالَ ائْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّکُمْ مِّنْ اَبِیْکُمْ: « پھر جب آپ نے اُن کا سامان تیار کروا دیا تو فرمایا کہ (آئندہ) اپنے اس بھائی کو بھی میرے پاس لے کر آنا جو تمہارے والد سے (تمہارا بھائی) ہے۔»
غلہ چونکہ راشن بندی کے تحت دیاجاتا تھا اس لیے انہوں نے درخواست کی ہو گی کہ ہمارا ایک بھائی اور بھی ہے، اس کے اہل خانہ بھی ہیں، اسے ہم اپنے والد کی خدمت کے لیے پیچھے چھوڑ آئے ہیں، اُس کے حصے کا غلہ بھی ہمیں دے دیا جائے۔ اس سلسلے میں سوال و جواب کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا ہو گا کہ ہم دس حقیقی بھائی ہیں جبکہ وہ گیارہواں بھائی باپ کی طرف سے سگا لیکن والدہ کی طرف سے سوتیلا ہے۔ حضرت یوسف نے یہ سارا ماجرا سننے کے بعد فرمایا ہو گا کہ ٹھیک ہے میں آپ کے گیارہویں بھائی کے حصے کا اضافی غلہ تم لوگوں کو اس شرط پر دے دیتا ہوں کہ آئندہ جب تم لوگ غلہ لینے کے لیے آؤ گے تو اپنے اس بھائی کو ساتھ لے کر آؤ گے تا کہ میں تصدیق کر سکوں کہ تم لوگوں نے غلط بیانی کر کے مجھ سے اضافی غلہ تو نہیں لیا۔
اَلاَ تَرَوْنَ اَنِّیْٓ اُوْفِی الْْکَیْلَ وَاَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ: « کیاتم دیکھتے نہیں ہو کہ میں پیمانہ پورا بھر کر دیتا ہوں اور بہترین مہمان نوازی کرنے والا بھی ہوں!»
اور جب یوسف نے اُن کا سامان تیار کر دیا تو اُن سے کہا کہ (آئندہ) اپنے باپ شریک بھائی کو بھی میرے پاس لے کر آنا۔ کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ میں پیمانہ بھر بھر کر دیتا ہوں ، اور میں بہترین مہمان نواز بھی ہوں ؟
فَإِن لَّمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلاَ كَيْلَ لَكُمْ عِندِي وَلاَ تَقْرَبُونِ
تشریح آیت ۶۰: فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِہ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِنْدِیْ وَلاَ تَقْرَبُوْنِ: « اور اگر تم اُسے میرے پاس لے کر نہیں آؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں ہے، اور تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا۔»
اب اگر تم اُسے لے کر نہ آئے تو میرے پاس تمہارے لئے کوئی غلہ نہیں ہوگا، اور تم میرے پاس بھی نہ پھٹکنا۔ ‘‘
قَالُواْ سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ
تشریح آیت ۶۱: قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ اَبَاہُ وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ: « انہوں نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں اس کے والد کو آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ہم یہ ضرور کر کے رہیں گے۔»
وہ بولے : ’’ ہم اُس کے والد کو اُس کے بارے میں بہلانے کی کوشش کریں گے (کہ وہ اُسے ہمارے ساتھ بھیج دیں ) اور ہم ایسا ضرور کریں گے۔ ‘‘
وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُواْ بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
تشریح آیت ۶۲: وَقَالَ لِفِتْیٰنِہِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَہُمْ فِیْ رِحَالِہِمْ: « اور یوسف نے اپنے نوجوانوں سے کہا کہ ان کی پونجی (بھی واپس) اُن کے کجاووں میں رکھ دو»
اس زمانے میں چیزوں کے عوض ہی چیزیں خرید ی جاتی تھیں۔ چنانچہ وہ لوگ بھی اپنے ہاں سے کچھ چیزیں (بھیڑ بکریوں کی اون وغیرہ) اس مقصد کے لیے لے کر آئے تھے اور غلے کی قیمت کے طور پر اپنی وہ چیزیں انہوں نے پیش کر دی تھیں۔ مگر حضرت یوسف نے اپنے ملازمین کو ہدایت کر دی کہ جب ان کے کجاووں میں گندم بھری جائے تو ان لوگوں کی یہ چیزیں بھی جو انہوں نے غلے کی قیمت کے طو رپر ادا کی ہیں چپکے سے واپس ان کے کجاووں میں ہی رکھ دی جائیں۔
لَعَلَّہُمْ یَعْرِفُوْنَہَآ اِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓی اَہْلِہِمْ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ: «تا کہ وہ پہچانیں ان کو جب لوٹیں اپنے اہل و عیال کی طرف، شاید کہ (اس طرح) وہ دوبارہ آئیں۔»
اور یوسف نے اپنے نوکروں سے کہہ دیا کہ وہ ان (بھائیوں ) کا مال (جس کے بدلے انہوں نے غلہ خریدا ہے) انہی کے کجاووں میں رکھ دیں ، تاکہ جب یہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس پہنچیں تو اپنے مال کو پہچان لیں ۔ شاید (اس احسان کی وجہ سے) وہ دوبارہ آئیں
فَلَمَّا رَجِعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
تشریح آیت ۶۳: فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓی اَبِیْہِمْ قَالُوْا یٰٓاََبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ: «پھر جب وہ لوٹے اپنے والد کے پاس تو کہنے لگے: ابا جان! ہم سے (ایک) پیمانہ روک لیا گیاہے»
یعنی انہوں نے آئندہ کے لیے ہمارے چھوٹے بھائی کے حصے کا غلہ روک دیا ہے اور وہ تبھی ملے گا جب ہم اس کو وہاں لے کر جائیں گے۔
فَاَرْسِلْ مَعَنَآ اَخَانَا نَکْتَلْ وَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ: «تو (آئندہ) ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیجئے گا تاکہ ہم (اس کے حصے کابھی) غلہ لے کر آئیں، اور ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے۔»
چنانچہ جب وہ اپنے والد کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : ’’ اباجان ! آئندہ ہمیں غلہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے، تاکہ ہم (پھر) غلہ لا سکیں ، اور یقین رکھئے کہ ہم اُس کی پوری پوری حفاظت کریں گے۔ ‘‘
قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلاَّ كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
تشریح آیت ۶۴: قَالَ ہَلْ اٰمَنُـکُمْ عَلَیْہِ اِلاَّ کَمَآ اَمِنْتُـکُمْ عَلٰٓی اَخِیْہِ مِنْ قَبْلُ: « یعقوب نے فرمایا کہ کیا میں اس کے بارے میں اسی طرح تم پر اعتبار کر لوں جیسے میں نے اس کے بھائی (یوسف ) کے بارے میں پہلے تم پر اعتبار کیا تھا؟ »
فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًا ص وَّھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ: « (ویسے تو) اللہ ہی بہترین محافظ ہے اور وہی تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔»
والد نے کہا : ’’ کیا میں اُس کے بارے میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں تم پر کیا تھا ؟ خیر ! اﷲ سب سے بڑھ کر نگہبان ہے، اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘
وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ
تشریح آیت ۶۵: وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَہُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَہُمْ رُدَّتْ اِلَیْہِمْ: « اور جب انہوں نے کھولا اپنا سامان تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی پونچی انہیں لوٹا دی گئی ہے۔»
قَالُوْا یٰٓــاَبَانَا مَا نَبْغِیْ ہٰذِہ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَا: « وہ پکار اٹھے: ابا جان! ہمیں اور کیا چاہیے؟ یہ ہماری پونجی بھی ہمیں لوٹا دی گئی ہے۔»
وَنَمِیْرُ اَہْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیْرٍ ذٰلِکَ کَیْلٌ یَّسِیْرٌ: « (اب ہم جائیں گے) اور اپنے اہل و عیال کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ لائیں گے۔ یہ (ایک اضافی) بوجھ (لانا تو اب) بہت آسان ہے۔»
اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کا مال بھی اُن کو لوٹا دیا گیا ہے۔ وہ کہنے لگے : ’’ ابا جان ! ہمیں اور کیا چاہیئے ؟ یہ ہمارا مال ہے جو ہمیں لوٹا دیا گیا ہے۔ اور (اس مرتبہ) ہم اپنے گھر والوں کیلئے اور غلہ لائیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ لے کر آئیں گے۔ (اس طرح) یہ زیادہ غلہ بڑی آسانی سے مل جائے گا۔ ‘‘
قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلاَّ أَن يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
تشریح آیت ۶۶: قَالَ لَنْ اُرْسِلَہ مَعَکُمْ حَتّٰی تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰہِ لَتَاْ تُنَّنِیْ بِہ اِلآَّ اَنْ یُّحَاطَ بِکُمْ: « یعقوب نے فرمایا: میں اسے (واپس) ہرگز نہیں بھیجوں گا تمہارے ساتھ، یہاں تک کہ تم میرے سامنے پختہ قسم کھاؤ اللہ کی کہ تم لازماً اسے لے کر آؤ گے میرے پاس، سوائے اس کے کہ تم سب کو گھیرے میں لے لیا جائے۔»
ہاں اگر کوئی ایسی مصیبت آ جائے کہ تم سب کے سب گھیر لیے جاؤ اور وہاں سے گلو خلاصی مشکل ہو جائے تو اور بات ہے، مگر عام حالات میں تم لوگ اسے واپس میرے پاس لانے کے پابند ہو گے۔
فَلَمَّآ اٰتَوْہُ مَوْثِقَہُمْ قَالَ اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ: « پھر جب انہوں نے آپ کو اپنا پختہ قول و قرار دے دیا تو یعقوب نے فرمایا کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔»
والد نے کہا : ’’ میں اس (بنیامین) کو تمہارے ساتھ اُس وقت تک ہر گز نہیں بھیجوں گا جب تک تم اﷲ کے نام پر مجھ سے یہ عہد نہ کرو کہ اُسے ضرور میرے پاس واپس لے کر آؤ گے، اِلا یہ کہ تم (واقعی) بے بس ہو جاؤ۔ ‘‘ چنانچہ جب انہوں نے اپنے والد کو یہ عہد دے دیا تو والد نے کہا : ’’ جو قول و قرار ہم کر رہے ہیں ، اُس پر اﷲ نگہبان ہے۔ ‘‘
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
تشریح آیت ۶۷: وَقَالَ یٰــبَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوْا مِنْ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ: « اور آپ نے کہا: اے میرے بیٹو! تم لوگ ایک دروازے سے (شہر میں) داخل نہ ہونا بلکہ متفرق دروازوں سے داخل ہونا۔»
حسد اور نظر بد وغیرہ کے اثرات سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ آپ تمام بھائی اکٹھے ایک دروازے سے شہر میں داخل ہونے کے بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں۔
وَمَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ: « اور میں تم کو بچا نہیں سکتا اللہ (کے فیصلے) سے کچھ بھی۔»
میں اللہ کے کسی فیصلے کو تم لوگوں سے نہیں ٹال سکتا۔ اگر اللہ کی مشیت میں تم لوگوں کو کوئی گزند پہنچنا منظور ہے تو میں اُس کو روک نہیں سکتا۔ یہ صرف انسانی کوشش کی حد تک احتیاطی تدابیر ہیں جو ہم اختیار کر سکتے ہیں۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ: « اختیارِ مطلق تو صرف اللہ ہی کا ہے، اُسی پر میں نے توکل کیا ہے، اور تمام توکل کرنے والوں کو اُسی پر توکل کرنا چاہیے۔»
اور (ساتھ ہی یہ بھی) کہا کہ : ’’ میرے بیٹو ! تم سب ایک دروازے سے (شہر میں ) داخل نہ ہونا، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ میں اﷲ کی مشیت سے تمہیں نہیں بچا سکتا، حکم اﷲ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ا ُسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جن جن کو بھروسہ کرنا ہو، انہیں چاہیئے کہ اُسی پر بھروسہ کریں ۔ ‘‘
وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ
تشریح آیت ۶۸: وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَہُمْ اَبُوْہُمْ: «تو جب وہ داخل ہوئے جہاں سے انہیں حکم دیا تھا ان کے والد نے۔»
مَا کَانَ یُغْنِیْ عَنْہُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ اِلاَّ حَاجَۃً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰہَا: « وہ (یعقوب ) بچانے والا نہیں تھا ان کو اللہ (کے فیصلے) سے کچھ بھی، سوائے اس کے کہ یعقوب کے دل میں ایک خیال تھا جو اُس نے اسے پورا کر لیا۔»
حضرت یعقوب کے دل میں ایک کھٹک تھی جسے دور کرنے کے لیے آپ نے یہ تدبیر اختیار کی کہ اپنے بیٹوں کو ہدایت کر دی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں، لیکن آپ کی یہ تدبیر اللہ کے کسی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی۔
وَاِنَّہ لَذُوْعِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ: « اور یقینا آپ صاحب ِعلم تھے اُس علم کے اعتبار سے جو ہم نے آپ کو سکھایا تھا، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔»
اور جب وہ (بھائی) اُسی طرح (مصر میں ) داخل ہوئے جس طرح اُن کے والد نے کہا تھا تو یہ عمل اﷲ کی مشیت سے اُن کو ذرا بھی بچانے والا نہیں تھا، لیکن یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جو انہوں نے پوری کر لی۔ بیشک وہ ہمارے سکھائے ہوئے علم کے حامل تھے، لیکن اکثر لوگ (معاملے کی حقیقت) نہیں جانتے
وَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّي أَنَاْ أَخُوكَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
تشریح آیت ۶۹: وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَخَاہُ قَالَ اِنِّیْٓ اَنَا اَخُوْکَ: « اور جب وہ آئے یوسف کے پاس تو آپ نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں»
آپ نے اپنے چھوٹے بھائی بن یا مین کو علیحدگی میں اپنے پاس بلایا اور ان پر اپنی شناخت ظاہر کر دی کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں جو بچپن میں کھوگیا تھا۔
فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ: «تو اب مت غمگین ہونا اُس پر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔»
حضرت یوسف نے اپنے چھوٹے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اللہ نے اس اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے اور ہمیں آپس میں ملا بھی دیاہے۔ چنانچہ اب ان بڑے بھائیوں کے رویے پر تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب سختی کے دن ختم ہو گئے ہیں۔
اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کو اپنے پاس خاص جگہ دی، (اور انہیں ) بتایا کہ میں تمہارا بھائی ہوں ، لہٰذا تم ان باتوں پر رنجیدہ نہ ہونا جو یہ (دوسرے بھائی) کرتے رہے ہیں
فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
تشریح آیت ۷۰: فَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ: «پھر جب آپ نے ان کے لیے ان کا سامان تیار کرا دیا تو رکھ دیا پینے کا پیالہ اپنے بھائی کے سامان میں»
یہ بادشاہ کا خصوصی جام تھا جو سونے کا بنا ہوا تھا۔
ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الْعِیْرُ اِنَّکُمْ لَسٰرِقُوْنَ: « پھر ایک پکارنے والے نے پکار لگائی کہ اے قافلے والو! تم لوگ چور ہو۔»
جب وہ قافلہ چل پڑا تو اسے روک لیا گیا کہ ہمارے ہاں سے کوئی چیز چوری ہوئی ہے اور ہمیں اس بارے میں تم لوگوں پر شک ہے۔
پھر جب یوسف نے اُن کا سامان تیار کر دیا تو پانی پینے کا پیالہ اپنے (سگے) بھائی کے کجاوے میں رکھوادیا، پھر ایک منادی نے پکار کر کہا کہ : ’’ اے قافلے والو ! تم چور ہو۔ ‘‘
قَالُواْ وَأَقْبَلُواْ عَلَيْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ
تشریح آیت ۷۱: قَالُوْا وَاَقْبَلُوْا عَلَیْہِمْ مَّا ذَا تَفْقِدُوْنَ: « انہوں نے پوچھا اُن کی طرف مڑ کر کہ آپ کی کیا چیز گم ہوئی ہے؟»
انہوں نے ان کی طرف مڑ کر پوچھا کہ : ’’ کیا چیز ہے جو تم سے گم ہوگئی ہے ؟ ‘‘
قَالُواْ نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاء بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَاْ بِهِ زَعِيمٌ
تشریح آیت ۷۲: قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَآءَ بِہ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّاَنَا بِہ زَعِیْمٌ: «انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں بادشاہ کا جامِ زریں نہیں مل رہا اور جو اسے لے آئے گا اسے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر غلہ دیا جائے گا، اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔»
انہوں نے کہا کہ : ’’ ہمیں بادشاہ کا پیمانہ نہیں مل رہا، اور جو شخص اُسے لا کر دے گا، اُس کو ایک اونٹ کا بوجھ (انعام میں ) ملے گا، اور میں اس (انعام کے دلوانے) کی ذمہ داری لیتا ہوں ۔ ‘‘
قَالُواْ تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ
تشریح آیت ۷۳: قَالُوْا تَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَمَا کُنَّا سٰرِقِیْنَ: « انہوں نے کہا: اللہ کی قسم آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ ہم زمین میں فساد مچانے نہیں آئے اور ہم چوری کرنے والے ہر گز نہیں ہیں۔»
آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم قحط کے مارے لوگ یہاں اتنی دور سے غلہ لینے آئے ہیں، ہم کوئی چور ڈاکو نہیں ہیں۔ اُن کے اس فقرے اور اندازِ گفتگو میں بڑی لجاجت پائی جاتی ہے۔
وہ (بھائی) بولے : ’’ اﷲ کی قسم ! آپ لو گ جانتے ہیں کہ ہم زمین میں فساد پھیلانے کیلئے نہیں آئے تھے، اور نہ ہم چوری کرنے والے لوگ ہیں ۔ ‘‘
قَالُواْ فَمَا جَزَآؤُهُ إِن كُنتُمْ كَاذِبِينَ
تشریح آیت ۷۴: قَالُوْا فَمَا جَزَآؤُہ اِنْ کُنْتُمْ کٰذِبِیْنَ: «انہوں (شاہی ملازمین) نے کہا کہ پھر اس (چور) کی کیا سزا ہو گی اگر تم لوگ جھوٹے ہوئے؟»
یعنی اگر تم لوگ اپنے اس دعوے میں جھوٹے نکلے اور تم میں سے ہی کوئی شخص چور ہوا تو پھر اس شخص کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
انہوں نے کہا کہ : ’’ اگر تم لوگ جھوٹے (ثابت) ہوئے تو اس کی کیا سزا ہوگی ؟ ‘‘
قَالُواْ جَزَآؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ
تشریح آیت ۷۵: قَالُوْا جَزَآؤُہ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِہ فَہُوَ جَزَآؤُہ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ: « انہوں نے کہا کہ اس کی سزا یہی ہے کہ جس کے سامان میں وہ (جامِ زرّیں) پایا جائے وہ خود ہی اس کا بدلہ ہو گا۔ ہم تو اسی طریقے سے ظالموں کو سزا دیا کرتے ہیں۔»
انہوں نے کہا کہ ہاں اگر ایسا ہوا تو پھر جس کے سامان میں سے آپ کا جام نکل آئے، سزا کے طور پر آپ لوگ اسے اپنے پاس رکھ لیں، وہ آپ کا غلام بن جائے گا۔ ہمارے ہاں تو (شریعت ِابراہیمی کی رو سے) چوری کے جرم کی یہی سزا رائج ہے۔
انہوں نے کہا : ’’ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے کجاوے میں سے وہ (پیالہ) مل جائے، وہ خود سزامیں دھر لیا جائے۔ جو لوگ ظلم کرتے ہیں ، ہم ان کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ۔ ‘‘
فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاء أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاء أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاء اللَّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاء وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
تشریح آیت ۷۶: فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِہِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْہِ: « تو آپ نے (تلاشی) شروع کی اُن کے بوروں کی اپنے بھائی کے بورے سے پہلے، پھر آپ نے نکال لیا وہ (جام) اپنے بھائی کے سامان سے۔»
کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ: « اس طرح سے ہم نے تدبیر کی یوسف کے لیے۔»
یہ ایک ایسی تدبیر تھی جس میں توریے کا سا انداز تھا اور اس سے مقصود کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اس پورے خاندان کو آپس میں ملانا تھا۔ اس تدبیر کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے کہ حضرت یوسف نے اپنی طرف سے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ اللہ نے آپ کے لیے یہ ایک راہ نکالی تھی۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی تا کہ کسی ذہن میں یہ اشکال پیدا نہ ہو کہ ایسی تدبیر اختیار کرنا شانِ نبوت کے منافی ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار بھی مطلق ہے اور اس کا علم بھی ہر شے پر محیط ہے۔ اللہ کو تو علم تھا کہ یہ عارضی سا معاملہ ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ: « آپ کے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو روکتے بادشاہ کے قانون کے مطابق سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔»
لفظ «دین» کی تعریف (definition) کے اعتبار سے قرآن کی یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہاں دِیْنِ الْمَلِکِ (بادشاہ کے دین) سے مراد وہ نظام ہے جس کے تحت بادشاہ اس پورے ملک کو چلا رہا تھا، جس میں بادشاہ اقتدارِ اعلیٰ (Sovereignty) کا مالک تھا۔ اس کا اختیار مطلق تھا، اس کا ہر حکم قانون تھا اور پورا نظامِ سلطنت و مملکت اس کے تابع تھا۔ اس حوالے سے «دین اللہ» کی اصطلاح بہت آسانی سے واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگر اللہ کے اقتدار (Sovereignty) اور اختیار مطلق کو تسلیم کر کے پورا نظامِ زندگی اس کے تابع کر دیا جائے تو یہی «دین اللہ» کا عملی ظہور ہو گا۔ یہی وہ کیفیت تھی جو «دین اللہ» کے غلبے کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں پیدا ہوئی تھی اور جس کی گواہی سورۃ النصر میں اس طرح دی گئی ہے: اِذَاجَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔ اسی طرح آج کا دین جسے عوام کی فلاح کا ضامن قرار دیا جا رہا ہے « دین الجمہور» ہے۔ اس دین یا نظام میں قانون سازی کا اختیار جمہور یعنی عوام یا عوام کے نمائندوں کو حاصل ہے، وہ جسے چاہیں جائز قرار دیں اور جسے چاہیں نا جائز، اور یہی سب سے بڑا کفر اور شرک ہے۔
بہر حال اس وقت مصر میں بادشاہی نظام رائج تھا جس کو حضرت یوسف بدل نہیں سکتے تھے، کیونکہ آپ بادشاہ تو نہیں تھے۔ آپ کو جو اختیار حاصل تھا وہ اسی نظام کے مطابق اپنے شعبے اور محکمے کی حد تک تھا جس کے وہ انچارج تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے یہ تدبیر نکالی۔ آپ کے بھائیوں سے پہلے یہ اقرار کرالیا گیا کہ جس کے سامان سے وہ پیالہ برآمد ہو گا، سزا کے طور پر اسے خود ہی غلام بننا پڑے گا اور اس طرح حضرت یوسف کے لیے جواز پیدا ہو گیا کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے پاس روک سکیں۔
نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ: « ہم درجے بلند کرتے ہیں جس کے چاہتے ہیں۔اور ہر صاحب علم کے اوپر کوئی اور صاحب ِعلم بھی ہے۔»
یعنی علم کے لحاظ سے علماء کے درجات ہیں۔ ہر عالم کے اوپر اس سے بڑا عالم ہے اور یہ درجات اللہ تعالیٰ کی ذات پر جا کر اختتام پذیر ہوتے ہیں، جو سب سے بڑا عالم ہے۔
چنانچہ یوسف نے اپنے (سگے) بھائی کے تھیلے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے تھیلوں کی تلاشی شروع کی، پھر اُس پیالے کو اپنے (سگے) بھائی کے تھیلے میں سے برآمد کر لیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کی خاطر یہ تدبیر کی۔ اﷲ کی یہ مشیت نہ ہوتی تو یوسف کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھ لیتے، اورہم جس کو چاہتے ہیں ، اُس کے درجے بلند کر دیتے ہیں ، اور جتنے علم والے ہیں ، ان سب کے اُوپر ایک بڑا علم رکھنے والا موجود ہے
قَالُواْ إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا وَاللَّهُ أَعْلَمْ بِمَا تَصِفُونَ
تشریح آیت ۷۷: قَالُوْٓا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہ مِنْ قَبْلُ: «انہوں نے کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کا بھائی بھی چوری کر چکا ہے۔»
برادرانِ یوسف کی طبیعت کا ہلکا پن ملاحظہ ہو کہ اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے یہ بعید نہیں تھا، کیونکہ ایک زمانے میں اس کے ماں جائے بھائی (یوسف ) نے بھی اسی طرح کی حرکت کی تھی۔
فَاَسَرَّہَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِہ وَلَمْ یُبْدِہَا لَہُمْ: «اس کو چھپائے رکھا یوسف نے اپنے جی میں اور ان پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔»
قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّکَانًا وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ: «آپ نے (دل ہی دل میں ) کہا کہ تم بجائے خود بہت ُبر ے لوگ ہو، اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔»
انہوں نے آپ پر بھی فوراً چوری کا بے بنیاد الزام لگا دیا، مگر آپ نے کمالِ حکمت اور صبر سے اسے برداشت کیا اور اس پر کسی قسم کا کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔
(بہر حال !) وہ بھائی بولے کہ : ’’ اگر اس (بنیامین) نے چوری کی ہے تو (کچھ تعجب نہیں ، کیونکہ) اس کا ایک بھائی اس سے پہلے بھی چوری کر چکا ہے۔ ‘‘ اس پر یوسف نے ان پر ظاہر کئے بغیر چپکے سے (دل میں ) کہا کہ : ’’ تم تو اس معاملے میں کہیں زیادہ بُرے ہو، اور جو بیان تم دے رہے ہو، اﷲ اُس کی حقیقت خوب جانتا ہے۔ ‘‘
قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
تشریح آیت ۷۸: قَالُوْا یٰٓــاَیُّہَا الْعَزِیْزُ اِنَّ لَہ اَبًا شَیْخًا کَبِیْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَکَانَہ: « وہ کہنے لگے: اے عزیز (صاحب اختیار)! اس کا والد جو ہے بہت بوڑھا ہے، تو آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی ا یک کو رکھ لیں۔»
اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ: « ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ بڑے ہی نیک انسان ہیں۔»
یہ صورتِ حال ان لوگوں کے لیے بہت پریشان کن تھی۔ باپ کا اعتماد وہ پہلے ہی کھو چکے تھے۔ اس دفعہ اللہ کے نام پر عہد کر کے بن یامین کو اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب خیال آتا تھا کہ اگر اسے یہاں چھوڑ کر واپس جاتے ہیں تو والد کو جا کر کیا منہ دکھائیں گے۔ چنانچہ وہ گڑ گڑانے پر آ گئے اور حضرت یوسف کی منت سماجت کرنے لگے کہ آپ بہت شریف اور نیک انسان ہیں، آپ ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ اپنے پاس رکھ لیں، مگر اس کو جانے دیں۔
(اب) وہ کہنے لگے کہ : ’’ اے عزیز ! اس کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے، اس لئے اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو اپنے پاس رکھ لیجئے۔ ہم آپ کو ان لوگوں میں سے سمجھتے ہیں جو اِحسان کیا کرتے ہیں ۔ ‘‘
قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلاَّ مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّآ إِذًا لَّظَالِمُونَ
تشریح آیت ۷۹: قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلاَّ مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہٓ اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ: « یوسف نے فرمایا :اللہ کی پناہ اس بات سے کہ ہم پکڑ لیں کسی اور کو اُس شخص کے بجائے جس کے پاس سے ہم نے اپنا مال برآمد کیا ہے، یقینا اس صورت میں تو ہم ظالم ہوں گے۔»
یوسف نے کہا : ’’ اس (نا انصافی) سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جس شخص کے پاس سے ہماری چیز ملی ہے، اُس کو چھوڑ کر کسی اور کو پکڑ لیں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینی طور پر ہم ظالم ہوں گے۔ ‘‘
فَلَمَّا اسْتَيْأَسُواْ مِنْهُ خَلَصُواْ نَجِيًّا قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُواْ أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الأَرْضَ حَتَّىَ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
تشریح آیت ۸۰: فَلَمَّا اسْتَـیْئَسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِیًّا: « پھر جب وہ یو سف سے مایوس ہو گئے تو علیحدگی میں جا کر مشورہ کرنے لگے۔»
قَالَ کَبِیْرُہُمْ ا َلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاکُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَیْکُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰہِ: « ان کے بڑے نے کہا :کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کے نام پر پختہ عہد لیا ہوا ہے»
اُن کے سب سے بڑے بھائی کا نام یہودا تھا، یہ وہی تھے جنہوں نے مشورہ دے کر حضرت یوسف کی جان بچائی تھی کہ اگر تم اُس کی جان کے درپے ہو گئے ہو تو اسے قتل مت کرو بلکہ کسی دور دراز علاقے میں پھینک آؤ۔
وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَ: « اور (کیا تم نہیں جانتے) جو زیادتی اس سے پہلے تم یوسف کے معاملے میں کر چکے ہو!»
فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰی یَاْذَنَ لِیْٓ اَبِیْٓ: « اب میں تو اس سرزمین سے نہیں ہلوں گا، یہاں تک کہ میرے والد خود مجھے اجازت دے دیں »
تم لوگ جا کر والد صاحب کو سارا واقعہ بتاؤ، پھر اگر وہ مطمئن ہو کر مجھے اجازت دے دیں تو تب میں واپس جاؤں گا ورنہ میں ادھر ہی رہوں گا۔
اَوْ یَحْکُمَ اللّٰہُ لِیْ وَہُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ : « یا پھر اللہ ہی میرے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے، اور یقینا وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔»
چنانچہ جب وہ یوسف سے مایوس ہو گئے تو الگ ہو کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے۔ ان سب میں جو بڑا تھا، اُس نے کہا : ’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اﷲ کے نام پر عہد لیا تھا، اور اس سے پہلے تم یوسف کے معاملے میں جو قصور کر چکے ہو، (وہ بھی معلوم ہے) ۔ لہٰذا میں تو اس ملک سے اُس وقت تک نہیں ٹلوں گا جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں ، یا اﷲ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرمادے۔ اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
ارْجِعُواْ إِلَى أَبِيكُمْ فَقُولُواْ يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ
تشریح آیت ۸۱: اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓی اَبِیْکُمْ فَقُوْلُوْا یٰٓــاَبَانَآ اِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ: « تم لوٹ جاؤ اپنے والد کے پاس اور (جا کر) کہو کہ ابا جان! آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے۔»
وَمَا شَہِدْنَآ اِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَاکُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِیْنَ: « اور ہم گواہی نہیں دے سکتے مگر اُسی چیز کی جس کے بارے میں ہمیں علم ہے، اور ہم غیب کے نگہبان نہیں ہیں۔»
ابا جان! ہم نے اُسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا، ہم تو آپ کو وہی حقیقت بتا رہے ہیں جو ہمارے علم میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بن یا مین نے چوری کی ہے اور اس جرم میں وہ وہاں پکڑا گیا ہے۔
جاؤ، اپنے والد کے پاس واپس جاؤ، اور ان سے کہو کہ : ابا جان ! آپ کے بیٹے نے چوری کر لی تھی، اور ہم نے وہی بات کہی ہے جو ہمارے علم میں آئی ہے، اور غیب کی نگہبانی تو ہمارے بس میں نہیں تھی
وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيْرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ
تشریح آیت ۸۲: وَسْئَلِ الْقَرْیَۃَ الَّتِیْ کُنَّا فِیْہَا وَالْعِیْرَ الَّتِیْٓ اَقْبَلْنَا فِیْہَا وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ: « آپ اس بستی (والوں) سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے، اور اُس قافلے (والوں) سے جن کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ اور ہم (اپنے بیان میں ) بالکل سچے ہیں۔»
آپ مصر سے بھی حقیقت حال معلوم کرا سکتے ہیں یا پھر جس قافلے کے ساتھ ہم گئے تھے اس کے سب لوگ وہاں موجود تھے، ان کے سامنے یہ سب کچھ ہوا تھا۔ آپ ان میں سے کسی سے بھی پوچھ لیں، وہ سارا ماجرا آپ کو بتا دیں گے۔
اور جس بستی میں ہم تھے اس سے پوچھ لیجئے، اور جس قافلے میں ہم آئے ہیں ، اس سے تحقیق کر لیجئے، یہ بالکل پکی بات ہے کہ ہم سچے ہیں ۔ ‘‘
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
تشریح آیت ۸۳: قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ: « آپ نے فرمایا: (نہیں !)بلکہ تمہارے لیے تمہارے نفسوں نے ایک کام آسان کر دیا ہے، پس صبر ہی بہتر ہے۔»
حضرت یعقوب نے یہاں پر پھر وہی فقرہ بولا جو حضرت یوسف کی موت کے بارے میں خبر ملنے پر بولا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو وہ بیان کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: بہر حال میں اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔
عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِہِمْ جَمِیْعًا اِنَّہ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ: « ہو سکتا ہے اللہ ان سب کو لے آئے میرے پاس۔ یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔»
حضرت یعقوب کے لیے حضرت یوسف کا غم ہی کیا کم تھا کہ اب دیار غیر میں دوسرے بیٹے کے مصیبت میں گرفتار ہونے کی خبر مل گئی، اور پھر تیسرے بیٹے یہودا کا دکھ اس پر مستزاد جس نے مصر سے واپس آنے سے انکار کر دیا تھا، مگر پھر بھی آپ صبر کا دامن تھامے رہے۔ رنج والم کے سیل بے پناہ کا سامنا ہے مگر پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ بس اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا ہے اور اُسی کی رحمت سے اُمید!
(چنانچہ یہ بھائی یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے، اور ان سے وہی بات کہی جو بڑے بھائی نے سکھائی تھی) یعقوب نے (یہ سن کر) کہا : ’’ نہیں ، بلکہ تمہارے دلوں نے اپنی طرف سے ایک بات بنالی ہے۔ اب تو میرے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اﷲ میرے پاس ان سب کو لے آئے۔ بیشک اس کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل
وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
تشریح آیت ۸۴: وَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰٓاََسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ: «اور آپ نے اُن سے رخ پھیر لیا اور کہنے لگے ہائے افسوس یوسف پر! (اور رونا شروع کر دیا)»
وَابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ: «اور صدمے سے آپ کی آنکھیں سفیدپڑ گئی تھیں کیونکہ آپ غم کو (اندر ہی اندر ) پیتے رہتے تھے۔»
حضرت یعقوب کو حضرت یوسف سے بہت محبت تھی۔ بیٹے کے ہجر اور فراق میں آپ کے دل پر جو گزری تھی خود قرآن کے یہ الفاظ اس پر گواہ ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے جسے یہاں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے بچے کا فوت ہو جانا یقینا بہت بڑا صدمہ ہے، لیکن بچے کا گم ہو جانا اس سے کئی گنا بڑا صدمہ ہے۔ فوت ہونے کی صورت میں اپنے سامنے تجہیز و تکفین ہونے سے، اپنے ہاتھوں دفن کرنے اور قبر بنا لینے سے کسی قدر صبر کا دامن ہاتھ میں رہتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس صبر میں ثبات پیدا ہوتا جاتا ہے۔ مگر بچے کے گم ہونے کی صورت میں اس کی یاد مستقل طور پر انسان کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ یہ خیال کسی وقت چین نہیں لینے دیتا کہ نہ معلوم بچہ زندہ ہے یا فوت ہو گیا ہے۔ اور اگر زندہ ہے تو کہاں ہے؟ اور کس حال میں ہے؟ یہی دکھ تھا جو حضرت یعقوب کو اندر ہی اندر کھا گیا تھا اور رو رو کر آپ کی آنکھیں سفید ہو چکی تھیں۔ آپ کو وحی کے ذریعے یہ تو بتلا دیا گیا تھا کہ یوسف زندہ ہیں اور آپ سے ضرور ملیں گے، مگر کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ اور کب ملیں گے؟ یہ وہ سوالات تھے جو آپ کو سالہا سال سے مسلسل کرب میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔ اب بن یامین کی جدائی پر یوسف کا غم پوری شدت سے عود کر آیا۔
اور (یہ کہہ کر) انہوں نے منہ پھیر لیا، اور کہنے لگے : ’’ ہائے یوسف ! ‘‘ اور ان کی دونوں آنکھیں (روتے روتے) سفید پڑ گئی تھیں ، اور وہ دل ہی دل میں گھٹے جاتے تھے
قَالُواْ تَالله تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ
تشریح آیت ۸۵: قَالُوْا تَاللّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْہٰلِکِیْنَ: « انہوں نے کہا: (ابا جان!) اللہ کی قسم آپ تو یوسف ہی کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ یا تو (اسی صدمے میں) گھل جائیں گے یا فوت ہو جائیں گے۔»
ان کے بیٹے کہنے لگے : ’’اﷲ کی قسم ! آپ یوسف کو یاد کرنا نہیں چھوڑیں گے، یہاں تک کہ بالکل گھل کر رہ جائیں گے، یا ہلاک ہو بیٹھیں گے۔ ‘‘
قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
تشریح آیت ۸۶: قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ: «یعقوب نے فرمایا: میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں»
میں نے تم لوگوں سے تو کچھ نہیں کہا، میں نے تمہیں تو کوئی لعن طعن نہیں کی، تم سے تو میں نے کوئی باز پرس نہیں کی۔ یہی الفاظ تھے جو نبی اکرم نے طائف کے دن اپنی دعامیں استعمال فرمائے تھے: «اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ، اِلٰی مَنْ تَـکِلُنِیْ؟ …» « اے اللہ! میں تیری جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں اپنی قوت کی کمزوری اور اپنے وسائل کی کمی کی، اور لوگوں کے سامنے میری جو توہین ہو رہی ہے اس کی۔ اے اللہ ! تو نے مجھے کس کے حوالے کر دیا ہے؟…»
وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ: « اور میں اللہ کی طر ف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم لوگ نہیں جانتے ہو۔»
یعنی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم سے میں جانتا ہوں کہ یوسف زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے۔
یعقوب نے کہا : ’’ میں اپنے رنج و غم کی فریاد (تم سے نہیں ) صرف اﷲ سے کرتا ہوں ، اور اﷲ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں ، تم نہیں جانتے
يَا بَنِيَّ اذْهَبُواْ فَتَحَسَّسُواْ مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلاَ تَيْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لاَ يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ
تشریح آیت ۸۷: یٰبَنِیَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْہِ وَلاَ تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ: « اے میرے بیٹو !جاؤ اور تلاش کرو یوسف کو بھی اور اس کے بھائی کو بھی، اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔»
اِنَّہ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰٰفِرُوْنَ : « یقینا اللہ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی ہوتے ہیں۔»
صاحب ِایمان لوگ کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔
میرے بیٹو ! جاؤ، اور یوسف اور اس کے بھائی کا کچھ سراغ لگاؤ، اور اﷲ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو۔ یقین جانو، اﷲ کی رحمت سے وہی لوگ نااُمید ہوتے ہیں جو کافر ہیں ۔ ‘‘
فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَيْهِ قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَآ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
تشریح آیت ۸۸: فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْہِ: « پھر جب وہ لوگ یوسف کے ہاں پہنچے»
اگلے سال جب وہ لوگ اپنے والد کے حکم کے مطابق مصر پہنچے اور پھر حضرت یوسف کے سامنے پیش ہوئے۔
قَالُوْا یٰٓــاَیُّہَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَہْلَنَا الضُّرُّ: « انہوں نے کہا: اے عزیز (صاحب اختیار)! ہم پر اور ہمارے اہل و عیال پر بڑی سختی آ گئی ہے»
کئی سال سے لگا تار قحط کا سماں تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے اثرات زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر ہو رہے ہوں گے۔ بھیڑ بکریاں بھی ختم ہو چکی ہوں گی۔ اب تو ان کی اون بھی نہیں ہو گی جو اناج کی قیمت کے عوض دے سکیں۔
وَجِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ: « اور ہم بہت حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں، لیکن (اس کے باوجود) آپ ہمارے لیے پیمانے پورے بھر کر دیجیے»
اس دفعہ ہم جو چیزیں غلے کی قیمت ادا کرنے کے لیے لے کر آئے ہیں وہ بہت کم اور ناقص ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان سے غلے کی قیمت پوری نہیں ہو سکتی۔
وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا: « اور ہمیں خیرات بھی دیجیے۔»
اپنے انتہائی خراب حالات کی وجہ سے ہم چونکہ خیرات کے مستحق ہو چکے ہیں، اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ اس دفعہ کچھ غلہ آپ ہمیں خیرات میں بھی دیں۔
اِنَّ اللّٰہَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ: « یقینا اللہ صدقہ دینے والوں کو جزاد یتا ہے۔»
چونکہ حضرت یوسف کے لیے یہ ساری صورتِ حال بہت رقت انگیز تھی، اس لیے آپ مزید ضبط نہیں کر سکے اور آپ نے انہیں اپنے بارے میں بتانے کا فیصلہ کر لیا۔
چنانچہ جب وہ یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے (یوسف سے) کہا : ’’اے عزیز ! ہم پر اور ہمارے گھروالوں پر سخت مصیبت پڑی ہوئی ہے، اور ہم ایک معمولی سی پونجی لے کر آئے ہیں ، آپ ہمیں پورا پورا غلہ دے دیجئے، اور اﷲ کیلئے ہم پر اِحسان کیجئے۔ یقینا اﷲ اپنی خاطر اِحسان کرنے والوں کو بڑا اَجر عطا فرماتا ہے۔ ‘‘
قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ
تشریح آیت ۸۹: قَالَ ہَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰہِلُوْنَ: «آپ نے پوچھا :کیا تم لوگوں کو یاد ہے کہ تم نے کیا کیا تھا یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ جب کہ تم نادان تھے!»
آپ کا اپنے بھائیوں سے یہ سوال کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا حرف بہ حرف ایفا تھا جس کا ذکر سورت کے آغاز میں ان الفاظ میں ہوا تھا: وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ۔ یہ تب کی بات ہے جب وہ سب بھائی مل کر آپ کو باؤلی میں پھینکنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان الفاظ میں آپ کے دل پر الہام کیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ اپنے بھائیوں کو یہ بات ضرور جتلائیں گے، اور یہ ایسے وقت اور ایسی صورتِ حال میں ہو گا جب یہ بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گی۔
یوسف نے کہا : ’’ تمہیں کچھ پتہ ہے کہ تم جب جہالت میں مبتلا تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا ؟ ‘‘
قَالُواْ أَإِنَّكَ لأَنتَ يُوسُفُ قَالَ أَنَاْ يُوسُفُ وَهَذَا أَخِي قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيِصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
تشریح آیت ۹۰: قَالُوْٓا أَاِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَہٰذَآ اَخِیْ: « انہوں نے کہا: تو کیا آپ یوسف ہیں ؟ یوسف نے فرمایا: ہاں! میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے»
قَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا اِنَّہ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ: « اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔یقینا جو شخص تقویٰ کی روش اختیار کرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اللہ ایسے نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔»
(اس پر) وہ بول اُٹھے : ’’ ارے کیا تم ہی یوسف ہو ؟ ‘‘ یوسف نے کہا : ’’ میں یوسف ہوں ، اور یہ میرا بھائی ہے۔ اﷲ نے ہم پر بڑا اِحسان فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص تقویٰ اور صبر سے کام لیتا ہے، تو اﷲ نیکی کرنے والوں کا اَجر ضائع نہیں کرتا۔ ‘‘
قَالُواْ تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ
تشریح آیت ۹۱: قَالُوْا تَاللّٰہِ لَقَدْ اٰ ثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَاِنْ کُنَّا لَخٰطِئِیْنَ: « انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت بخشی ہے اور یقینا ہم ہی خطا کار تھے۔»
یقینا ہم خطا کار ہیں، بلا شبہ ظلم و زیادتی کے مرتکب ہم ہی ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا : ’’ اﷲ کی قسم ! اﷲ نے تم کو ہم پر ترجیح دی ہے، اور ہم یقینا خطا کار تھے۔ ‘‘
قَالَ لاَ تَثْرَيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
تشریح آیت ۹۲: قَالَ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ: « یوسف نے فرمایا: آج کے دن تم لوگوں پر کوئی ملامت نہیں۔»
یہ اس قدر معمولی بات نہیں تھی جسے اس ایک فقرے میں ختم کر دیا جاتا، مگر حضرت یوسف کی شخصیت کے ترفع اور اخلاق کی عظمت کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے ان خطا کار بھائیوں کو فوراً غیر مشروط طور پر معاف کر دیا۔
یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ نبی اکرم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مخالفین، جن کے جرائم کی فہرست بڑی طویل اور سنگین تھی، کو معاف کرتے ہوئے حضرت یوسف کے اسی قول کا تذکرہ کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: «اَنَا اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ یُوْسُفُ: لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ» « میں آج (تمہارے بارے میں) وہی کہوں گا جو میرے بھائی حضرت یوسف نے (اپنے بھائیوں سے) کہا تھا: (جاؤ) تم پرآج کوئی گرفت نہیں ہے!»
یَغْفِرُ اللّٰہُ لَـکُمْ وَہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ: « اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔»
یوسف بولے : ’’ آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہوگی، اﷲ تمہیں معاف کرے، وہ سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے
اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ
تشریح آیت ۹۳: اِذْہَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا: « تم میری یہ قمیص لے جاؤ اور (جا کر) اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو، آپ کی بصارت لوٹ آئے گی۔»
وَاْتُوْنِیْ بِاَہْلِکُمْ اَجْمَعِیْنَ: « اور تم لے آؤ میرے پاس اپنے تمام اہل خانہ کو۔»
میرا یہ قمیض لے جاؤ، اور اُسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دینا، اس سے ان کی بینائی واپس آجائے گی۔ اور اپنے سارے گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ۔ ‘‘
وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلاَ أَن تُفَنِّدُونِ
تشریح آیت ۹۴: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْہُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ: « اور جب قافلہ چلا (مصر سے تو) ان کے والدنے فرمایا : مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے، اگر تم لوگ یہ نہ کہو کہ میں سٹھیا گیا ہوں۔»
یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ جونہی حضرت یوسف کی قمیص لے کر قافلہ مصر سے چلا اسی لمحے کنعان میں حضرت یعقوب کو اپنے بیٹے کی خوشبو پہنچ گئی۔ مگر اس سے پہلے ایک طویل عرصے تک آپ نے اپنے بیٹے کے ہجر میں رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کر لیں، مگر یہ خوشبو نہیں آئی۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی نبی ہو یا ولی، کسی معجزے یا کرامت کا ظہور کسی بھی شخصیت کا ذاتی کمال نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ وہ جس کو، جس وقت جو علم چاہے عطا فرما دے یا اس کے ہاتھوں جو چاہے دکھا دے۔ جیسے ایک دفعہ حضرت عمر کو مسجد نبوی میں خطبہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے شام کے علاقے میں واقع اس میدانِ جنگ کا نقشہ دکھا دیا جہاں اُس وقت اسلامی افواج برسر پیکار تھیں، اور آپ نے فوج کے کمانڈر ساریہ کو ایک حربی تدبیر اختیارکرنے کی بآوازِ بلند تلقین فرمائی۔ جناب ساریہ نے میدانِ جنگ میں حضرت عمر کی آواز سنی اور آپ کی ہدایت پر عمل کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت عمر کو اختیار تھا کہ جب چاہتے ایسا منظر دیکھ لیتے۔
اور جب یہ قافلہ (مصر سے کنعان کی طرف) روانہ ہوا تو ان کے والد نے (کنعان میں آس پاس کے لوگوں سے) کہا کہ : ’’ اگر تم مجھے یہ نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے، تو مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ ‘‘
قَالُواْ تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلاَلِكَ الْقَدِيمِ
تشریح آیت ۹۵: قَالُوْا تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ: «انہوں (گھر والوں) نے کہا: اللہ کی قسم! آپ تو اپنے اسی پرانے خبط ہی میں مبتلا ہیں۔»
آپ کو شروع ہی سے یہ وہم ہے کہ یوسف زندہ ہے اور آپ کو اس کے دوبارہ ملنے کا یقین ہے۔ یہ آپ کے ذہن پر اسی وہم کے غلبے کا اثر ہے جو آپ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہی پرانے خیالات یوسف کی خوشبو بن کر آپ کے دماغ میں آ رہے ہیں۔
لوگوں نے کہا : ’’ اﷲ کی قسم ! آپ ابھی تک اپنی پرانی غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ‘‘
فَلَمَّا أَن جَاء الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
تشریح آیت ۹۶: فَلَمَّآ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰـہُ عَلٰی وَجْہِہ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا: « تو جب آیابشارت دینے والا اور اُس نے ڈالا اس (قمیص) کو یعقوب کے چہرے پر تو آپ پھر سے ہو گئے دیکھنے والے۔»
یوسف کی قمیص چہرے پر ڈالتے ہی حضرت یعقوب کی بصارت لوٹ آئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت یعقوب کے سامنے زندگی کا سب سے اندوہناک غم بھی حضرت یوسف کے کرتے ہی کی صورت میں سامنے آیا تھا جب برادرانِ یوسف نے اس پر خون لگا کر ان کے سامنے پیش کر دیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا اور اب زندگی کی سب سے بڑی خوشی بھی یوسف کے کرتے ہی کی صورت میں نمودار ہو گئی۔
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ: « آپ نے فرمایا: کیا میں تم سے کہتا نہیں تھا کہ مجھے اللہ کی طرف سے ان چیزوں کا علم ہے جو تم نہیں جانتے؟»
پھر جب خوشخبری دینے والا پہنچ گیا تو اُس نے (یوسف کی) قمیض ان کے منہ پر ڈال دی، اور فوراً ان کی بینائی واپس آگئی۔ انہوں نے (اپنے بیٹوں سے) کہا : ’’ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اﷲ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں ، تم نہیں جانتے ؟ ‘‘
قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ
تشریح آیت ۹۷: قَالُوْا یٰٓاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیْنَ: « انہوں نے کہا: ابا جان! ہمارے لیے ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کیجئے، یقینا ہم ہی خطا کار تھے۔»
وہ کہنے لگے : ’’ اباجان ! آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کی دُعا فرمائیے۔ ہم یقینا بڑے خطا کار تھے۔ ‘‘
قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
تشریح آیت ۹۸: قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ اِنَّہ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ: « آپ نے فرمایا :عنقریب میں مغفرت طلب کروں گا تمہارے لیے اپنے رب سے، یقینا وہی ہے بخشش والا، بہت رحم کرنے والا۔»
یہاں پر « سَوْفَ» کا لفظ بہت اہم ہے۔ یعنی آپ نے فوری طور پر ان کے لیے استغفار نہیں کیا بلکہ وعدہ کیا کہ میں عنقریب تم لوگوں کے لیے اپنے رب سے استغفار کروں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اپنے بیٹوں کے بارے میں آپ کے دل میں رنج اور غصہ برقرار تھا۔ شاید آپ کا خیال ہو کہ میں یوسف سے مل کر ساری تفصیلات معلوم کروں گا، اس کے بعد جب تمام معاملات کی صفائی ہو جائے گی تو پھر میں اپنے رب سے ان کے لیے معافی کی درخواست کروں گا۔
یعقوب نے کہا : ’’ میں عنقریب اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کروں گا۔ بیشک وہی ہے جو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ‘‘
فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُواْ مِصْرَ إِن شَاء اللَّهُ آمِنِينَ
تشریح آیت ۹۹: فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ: « پھر جب وہ سب یوسف کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے جگہ دی اپنے پاس اپنے والدین کو»
کنعان سے چل کر بنی اسرائیل کا یہ پورا خاندان جب حضرت یوسف کے پاس مصر پہنچا تو آپ نے خصوصی اعزاز کے ساتھ ان کا استقبال کیا اوراپنے والدین کو اپنے پاس امتیازی نشستیں پیش کیں۔
وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ: « اور کہا کہ اب آپ لوگ مصر میں داخل ہوجائیں، اللہ نے چاہا تو پورے امن و چین کے ساتھ (یہاں رہیں)۔»
اب آپ لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اگر اللہ نے چاہا تو یہاں آپ کے لیے امن وچین اور سکون و راحت ہی ہے۔
پھر جب یہ سب لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی، اور سب سے کہا کہ : ’’ آپ سب مصر میں داخل ہو جائیں ، جہاں اِن شاء اﷲ سب چین سے رہیں گے۔ ‘‘
وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بَي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاء بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاء إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
تشریح آیت ۱۰۰: وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہ سُجَّدًا: « اور آپ نے اپنے والدین کو اونچے تخت پر بٹھایا، اور وہ سب کے سب یوسف کے سامنے سجدے میں گر گئے۔»
یہ سجده تعظیمی تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ شریعت ِمحمدی میں جہاں دین کی تکمیل ہو گئی وہاں توحید کا معاملہ بھی آخری درجے میں تکمیل کو پہنچا دیا گیا۔ چنانچہ یہ سجده تعظیمی اب حرامِ مطلق ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں یا قبروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ صریح شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کرام کے حالات وواقعات سے آج اس کے لیے کوئی دلیل اخذ کرنا قطعاً درست نہیں۔
وَقَالَ یٰٓــاَبَتِ ہٰذَا تَاْوِیْلُ رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ: « اور یوسف نے کہا: ابا جان! یہ ہے تعبیر اُس خواب کی جو میں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا»
حضرت یوسف کے اس خواب کا ذکر (آیت: ۴) میں ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ اس میں گیارہ بھائی ستاروں کی مانند جبکہ والدین سورج اور چاند کے حکم میں ہیں۔
قَدْ جَعَلَہَا رَبِّیْ حَقًّا: « میرے رب نے اس کو سچا کر دکھایا۔»
وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ: « اور اُس نے مجھ پر بہت احسان کیا جب مجھے قید خانے سے نکلوایا»
وَجَآءَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ: « اور آپ لوگوں کو (یہاں ) لے آیا صحرا سے»
آپ لوگوں کو صحرا کی پر مشقت زندگی سے نجات دلا کر یہاں مصر کے متمدن اور ترقی یافتہ ماحول میں پہنچا دیا، جہاں زندگی کی ہر سہولت میسر ہے۔
مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ: « اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان دشمنی ڈال دی تھی۔»
اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُ اِنَّہ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ : « یقینا میرا ربّ غیر محسوس طور پر تدبیر کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ یقینا وہی ہے ہر شے کا علم رکھنے والا، حکمت والا۔»
اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق باریک بینی سے تدبیر کرتا ہے اور اس کی تدبیر بالآخر کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے بعد حضرت یوسف اللہ کے حضور دعا کر تے ہیں:
اور انہوں نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا، اور وہ سب ان کے سامنے سجدے میں گر پڑے، اور یوسف نے کہا : ’’ اباجان ! یہ میرے خواب کی تعبیر ہے جسے میرے پروردگار نے سچ کر دکھایا، اور اس نے مجھ پر بڑا احسان فرمایا کہ مجھے قید خانے سے نکال دیا، اور آپ لوگوں کو دیہات سے یہاں لے آیا، حالانکہ اس سے پہلے شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے، اس کیلئے بڑی لطیف تدبیریں کرتا ہے۔ بیشک وہی ہے جس کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل
رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنُيَا وَالآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
تشریح آیت ۱۰۱: رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ: «اے میرے ربّ! تو نے مجھے حکومت بھی عطا کی ہے اور مجھے خوابوں کی تعبیر (یا معاملہ فہمی) کا علم بھی سکھایا ہے۔»
فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِی فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ: « اے وہ ہستی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، تو ہی میرا کارساز ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔»
تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ: « مجھے وفات دیجیو فرمانبرداری کی حالت میں اور مجھے شامل کر دیجیو اپنے صالح بندوں میں۔»
میرے پروردگار ! تو نے مجھے حکومت سے بھی حصہ عطا فرمایا، اور مجھے تعبیر خواب کے علم سے بھی نوازا۔ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! تو ہی دُنیا اور آخرت میں میرا رکھوالا ہے۔ مجھے اس حالت میں دُنیا سے اُٹھا ناکہ میں تیرا فرماں بردار ہوں ، اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کرنا۔ ‘‘