وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ
تشریحآیت 86: وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ: ’’اور اسماعیل اور الیَسَع اور یونس اور لوط کو بھی (راہ یاب کیا) ، اور ان سب کو ہم نے تمام جہان والوں پر فضیلت دی۔،،
نیز اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط کو بھی۔ اور ان سب کو ہم نے دنیا جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی
وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
تشریحآیت 87: وَمِنْ اٰبَــآئِہِمْ وَذُرِّیّٰتِہِمْ وَاِخْوَانِہِمْ وَاجْتَـبَیْنٰـہُمْ وَہَدَیْنٰـہُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ: ’’اور ان کے آباء و اَجداد میں سے بھی، ان کی نسلوں میں سے بھی اور ان کے بھائیوں میں سے بھی ( ہم نے ہدایت یافتہ بنائے)، اور ان کو ہم نے چن لیا اور ان کو ہدایت دی سیدھے راستے کی طرف۔،،
اور ان کے باپ دادوں ، ان کی اولادوں اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بہت سے لوگوں کو۔ ہم نے اِن سب کو منتخب کر کے راہِ راست تک پہنچا دیا تھا
ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
تشریحآیت 88: ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ: ’’یہ اللہ کی وہ ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ راہنمائی فرماتا ہے جس کی چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے۔ اور اگر (بالفرض) وہ بھی شرک کرتے تو ان کے بھی سارے اعمال ضائع ہو جاتے۔،،
یہ انداز ہمیں سمجھانے کی غرض سے اختیار کیا گیا ہے کہ شرک کتنی بری شے ہے۔ ورنہ اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ ایسے اعلیٰ مراتب پر فائز اللہ کے عظیم الشان انبیاء و رسل شرک میں مبتلا ہوتے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک ناقابل معافی جرم ہے، جس کے بارے میں سورۃ النساء میں دو مرتبہ یہ الفاظ آ چکے ہیں: اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ. (آیت: 48 و116)
یہ اﷲ کی دی ہوئی ہدایت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے راہِ راست تک پہنچا دیتا ہے۔ اور اگر وہ شرک کرنے لگتے تو ان کے سارے (نیک) اعمال اکارت ہو جاتے
أُوْلَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلاء فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُواْ بِهَا بِكَافِرِينَ
تشریحآیت 89: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰـہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّـبُـوَّۃَ: ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب، حکمت، اور نبوت عطا فرمائی۔،،
فَاِنْ یَّـکْفُرْ بِہَا ہٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّــیْسُوْا بِہَا بِکٰفِرِیْنَ: ’’پھر اگر یہ لوگ اس کا انکار کر رہے ہیں تو (کچھ پروا نہیں ) ہم نے کچھ اور لوگ اس کام کے لیے مقرر کر دیے ہیں جو اس کی ناقدری نہیں کریں گے۔،،
مقامِ عبرت ہے! محمد رسول اللہ جیسا رسول، مبلغ، داعی، مربی، مزکی اور معلّم پچھلے بارہ سال سے دن رات محنت کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اب تک صرف ڈیڑھ، پونے دو سو افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو ئے ہیں ۔ اس پس منظر میں آپ سے فرمایا جا رہا ہے کہ مکہ کے یہ لوگ اگر اس دعوت کی نا قدری کر رہے ہیں، اس قرآن کی نا شکری کر رہے ہیں، اس کا انکار کر رہے ہیں اور آپ کی دس بارہ سال کی محنت کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں تو آپ دل شکستہ نہ ہوں، عنقریب ایک دوسری قوم بڑے ذوق وشوق سے اس دعوت پر لبیک کہنے جا رہی ہے۔ اس خوش قسمت قوم سے مراد انصارِ مدینہ ہیں۔ اور واقعی اس سلسلے میں اہل مکہ پیچھے رہ گئے اور اہل مدینہ بازی لے گئے۔ بقولِ شاعر:
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا!
دُنیا کے حالات و اسباب کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ دین کے کام میں کیسے کیسے اسباب پیدا فرماتے ہیں اور کہاں کہاں سے کس کس طرح کے لوگوں کے دلوں کو پھیر کر ہدایت کی توفیق دے دیتے ہیں۔ مجھے اپنی دعوت رجوع الی القرآن کے بارے میں بھی اطمینان ہے کہ پاکستان میں اس کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی تو کیا ہوا، یہ دعوت مختلف ذرائع سے پوری دنیا میں پھیل رہی ہے، اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن کی یہ انقلابی دعوت کس جگہ زمین کے اندر جڑ پکڑ لے اور ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر لے۔
وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب، حکمت اور نبوت عطا کی تھی۔ اب اگر یہ (عرب کے) لوگ اس (نبوت) کا انکار کریں تو (کچھ پرواہ نہ کرو، کیونکہ) اس کے ماننے کیلئے ہم نے ایسے لوگ مقرر کر دیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں
أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ قُل لاَّ أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ
تشریحآیت 90: اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰٹہُمُ اقْتَدِہْ: ’’یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی تھی، تو آپ بھی ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔،،
یعنی ابھی جن ابنیاء و رسل کا ذکر ہوا ہے، سترہ ناموں کا خوبصورت گلدستہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے، وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ تھے۔ اس سلسلے میں حضور کو فرمایا جا رہا ہے کہ آپ بھی ان کے طریقے کی پیروی کریں۔ اس آیت سے ایک بہت اہم نکتہ اور اصول یہ سامنے آتا ہے کہ سابق انبیاء کی شریعت کا ذکر کرتے ہوئے جن احکام کی نفی نہ کی گئی ہو، وہ ہمارے لیے بھی قابل اتباع ہیں ۔ مثلاً رجم کی سزا قرآن میں مذکور نہیں ہے، یہ سابقہ شریعت کی سزا ہے، جس کو حضور نے برقرار رکھا ہے۔ اسی طرح قتل مرتد کی سزا کا ذکر بھی قرآن میں نہیں ہے، یہ بھی سابقہ شریعت کی سزا ہے ، جس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس نکتے سے یہ اصول سامنے آتا ہے کہ جب تک قرآن و سنت میں سابقہ شریعت کے کسی حکم کی نفی نہیں ہوتی وہ حکم اسلامی شریعت میں برقرار رہتا ہے۔
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ ہُوَ اِلاَّ ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ: ’’کہہ دیجیے میں تم سے اس پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ۔ یہ نہیں ہے مگر تمام جہان والوں کے لیے یاد دہانی۔ ،،
یہ قرآن تو بس اہل عالم کے لیے ایک نصیحت ہے، یاد دہانی ہے، جو چاہے اس سے کسب ِفیض کرے، جو چاہے اس سے نور حاصل کرے، جو چاہے اس سے صراطِ مستقیم کی راہنمائی اخذ کر لے۔
یہ لوگ (جن کا ذکر اُوپر ہوا) وہ تھے جن کو اﷲ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی، لہٰذا (اے پیغمبر !) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔ (مخالفین سے) کہہ دو کہ میں تم سے اِس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو دُنیا جہان کے سب لوگوں کیلئے ایک نصیحت ہے اور بس