لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّبَعُوكَ وَلَكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
تشریح آیت 42: لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْہِمُ الشُّقَّۃُ: ‘‘اگر مالِ غنیمت قریب ہوتا اور سفر بھی چھوٹا ہوتا تو (اے نبی ) یہ آپ کی پیروی کرتے‘ لیکن ان کو تو بڑی بھاری پڑ رہی ہے دُور کی مسافت۔‘‘
اگر ان منافقین کو توقع ہوتی کہ مالِ غنیمت آسانی سے مل جائے گا اور ہدف بھی کہیں قریب ہوتا تو یہ لوگ ضرور آپ کا ساتھ دیتے‘ مگر اب تو حالت یہ ہے کہ تبوک کی مسافت کا سن کر ان کے دل بیٹھے جا رہے ہیں ۔
رسول اللہ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ کسی بھی مہم کے ہدف وغیرہ کو ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتے تھے۔ جنگ یا مہم کے لیے نکلنا ہوتا تو تیاری کا حکم دے دیا جاتا‘ مگر یہ نہ بتایا جاتا کہ کہاں جانا ہے اور منصوبہ کیا ہے۔ اسی طرح فتح مکہ کے منصوبہ کو بھی آخر وقت تک خفیہ رکھا گیا تھا۔ مگر غزوه تبوک کی تیاری کے حکم کے ساتھ ہی آپ نے تمام تفصیلات بھی علی الاعلان سب کو بتا دی تھیں کہ لشکر کی منزلِ مقصود تبوک ہے اور ہمارا ٹکراؤ سلطنت ِروما سے ہے‘ تا کہ ہر شخص ہر لحاظ سے اپنا جائزہ لے لے اور داخلی و خارجی دونوں پہلوؤں سے تیاری کر لے۔ سازو سامان بھی مہیا کر لے اور اپنے حوصلے کی بھی جانچ پرکھ کر لے۔
وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ: ‘‘اور عنقریب یہ لوگ قسمیں کھائیں گے اللہ کی کہ اگر ہمارے اندر استطاعت ہوتی تو ہم ضرور نکلتے تم لوگوں کے ساتھ۔‘‘
یعنی قسمیں کھا کھا کر بہانے بنائیں گے اور اپنی فرضی مجبوریوں کا رونا روئیں گے۔
یُہْلِکُوْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ: ‘‘یہ لوگ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں‘ اور اللہ کو معلوم ہے کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں۔‘‘
اگر دنیا کا سامان کہیں قریب ملنے والا ہوتا، اور سفر درمیانہ قسم کا ہوتا تو یہ (منا فق لوگ) ضرور تمہارے پیچھے ہو لیتے لیکن یہ کٹھن فاصلہ اِن کیلئے بہت دور پڑگیا۔ اور اَب یہ اﷲ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں استطاعت ہوتی تو ہم ضرور آپ کے ساتھ نکل جاتے۔ یہ لوگ اپنی جانوں کو ہلاک کر رہے ہیں ، اور اﷲ خوب جانتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں
عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
تشریح آیت 43: عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ : ‘‘(اے نبی !) اللہ آپ کومعاف فرمائے (یا اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا) آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟‘‘
یعنی آپ کے پاس کوئی منافق آیا اور اپنی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر جہاد سے رخصت چاہی تو آپ نے اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے اسے اجازت دے دی۔ اب اس شخص کو تو گویا سند مل گئی کہ میں نے حضور سے رخصت لی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ تو اس کا تھا ہی نہیں‘ مگر اجازت مل جانے سے اس کی منافقت کا پردہ چاک نہیں ہوا۔ اجازت نہ ملتی تو واضح طور پرمعلوم ہو جاتا کہ اُس نے حضور کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ اس طرح کئی منافقین آئے اور اپنی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر آپ سے رخصت لے گئے۔
حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ: ‘‘یہاں تک کہ آپ کے لیے واضح ہو جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور آپ (یہ بھی) جان لیتے کہ کون جھوٹے ہیں۔‘‘
(اے پیغمبر !) اﷲ نے تمہیں معاف کر دیا ہے، (مگر) تم نے اِن کو (جہاد میں شریک نہ ہونے کی) اجازت اس سے پہلے ہی کیوں دے دی کہ تم پر یہ بات کھل جاتی کہ کون ہیں جنہوں نے سچ بولا ہے، اور تم جھوٹوں کو بھی اچھی طرح جان لیتے
لاَ يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ
تشریح آیت 44: لاَ یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ: ‘‘وہ لوگ جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپ سے اجازت کے طالب ہو ہی نہیں سکتے کہ وہ جہاد نہ کریں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ۔‘‘
سچے مؤمن ایسی صورتِ حال میں ایسا کبھی نہیں کر سکتے کہ وہ جہاد سے معافی کے لیے درخواست کریں‘ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ قبل ازیں بیان ہو چکا ہے کہ سورۃ الحجرات کی آیت: 15 میں ایمان کی جو تعریف (definition) کی گئی ہے اس میں تصدیق قلبی اور جہاد فی سبیل اللہ کو ایمان کے ارکان قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت کا ذکر سورۃ الانفال کی آیت 2 اور آیت 74 کے ضمن میں بھی گزر چکا ہے۔ اس میں جہاد فی سبیل اللہ کو واضح طور پر ایمان کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔
وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالْمُتَّقِیْنَ: ‘‘اور اللہ متقی بندوں سے خوب واقف ہے۔‘‘
جولوگ اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، وہ اپنے مال و جان سے جہاد نہ کرنے کیلئے تم سے اجازت نہیں مانگتے، اور اﷲ متقی لوگوں کو خوب جانتا ہے
إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ
تشریح آیت 45: اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ: ‘‘آپ سے رخصت تو وہی مانگ رہے ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘ اور ان کے دل شکوک میں پڑ گئے ہیں‘‘
یہاں سورۃ الحجرات کی مذکورہ آیت کے الفاظ «ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا» ذہن میں دوبارہ تازہ کر لیجئے کہ مؤمن تو وہی ہیں جو ایمان لانے کے بعد شک میں نہ پڑیں‘ اور یہاں «وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ» کے الفاظ سے واضح فرما دیا کہ ان منافقین کے دلوں کے اندر تو شکوک و شبہات مستقل طور پر ڈیرے ڈال چکے ہیں۔
فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ: ‘‘اور وہ اپنے اسی شک و شبہ کے اندر متردد ہیں۔‘‘
اپنے ایمان کے اندر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے وہ تذبذب میں پڑے ہوئے ہیں اورجہاد کے لیے نکلنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ کبھی اُن کو مسلمانوں کے ساتھ چلنے میں مصلحت نظر آتی کہ نہ جانے سے ایمان کا ظاہری بھرم بھی جاتا رہے گا‘ مگر پھر فوراً ہی مسافت کی مشقت کے تصور سے دل بیٹھ جاتا‘ دُنیوی مفادات کا تصور پاؤں کی بیڑی بن جاتا اور پھر سے جھوٹے بہانے بننے شروع ہو جاتے۔
تم سے اجازت تو وہ لوگ مانگتے ہیں جو اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں ، اور وہ اپنے شک کی وجہ سے ڈانو اڈول ہیں
وَلَوْ أَرَادُواْ الْخُرُوجَ لأَعَدُّواْ لَهُ عُدَّةً وَلَكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُواْ مَعَ الْقَاعِدِينَ
تشریح آیت 46: وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہ عُدَّۃً: ‘‘اور اگر انہوں نے نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے لیے سازو سامان فراہم کرتے‘‘
ایسے طویل اور کٹھن سفر کے لیے بھر پور تیاری کی ضرورت تھی‘ بہت سا سازوسامان درکار تھا‘ مگر اس کے لیے اُن کا کچھ بھی تیاری نہ کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا خود ہی ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے جانے کا ارادہ تک نہیں کیا۔
وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ: ‘‘لیکن (حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ نے پسند ہی نہیں کیا اُن کا اٹھنا (اور نکلنا) تو ان کو روک دیااور کہہ دیا گیا کہ بیٹھے رہو تم بھی بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ۔‘‘
اس فرمان میں جو حکمت تھی اس کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی گئی:
اگر ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو اُس کیلئے انہوں نے کچھ نہ کچھ تیاری کی ہوتی۔ لیکن اﷲ نے اِن کا اُٹھنا پسند ہی نہیں کیا، اس لئے انہیں سست پڑا رہنے دیا، اور کہہ دیا گیا کہ جو (اپاہج ہونے کی وجہ سے) بیٹھے ہیں ، اُن کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو
لَوْ خَرَجُواْ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلاَّ خَبَالاً ولأَوْضَعُواْ خِلاَلَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
تشریح آیت 47: لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلاَّ خَبَالاً: ‘‘اگر یہ نکلتے (اے مسلمانو!) تمہارے ساتھ تو ہر گز اضافہ نہ کرتے تمہارے لیے مگر خرابی ہی کا‘‘
اُن کے دلوں میں چونکہ روگ تھا‘ اس لیے لشکر کے ساتھ جا کر بھی یہ لوگ فتنے ہی اٹھاتے‘ لڑائی جھگڑا کرانے کی کوشش کرتے اور سازشیں کرتے۔ لہٰذا ان کے بیٹھے رہنے اور سفر میں آپ لوگوں کے ساتھ نہ جا نے میں بھی بہتری پوشیدہ تھی۔ گویا بندۂ مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح خیر ہی خیر ہے‘ جبکہ منافق کے لیے ہر حالت میں شر ہی شر ہے۔
وَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ: ‘‘اور گھوڑے دوڑاتے تمہارے مابین فتنہ پیدا کرنے کے لیے۔‘‘
وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ: ‘‘اور تمہارے اندر ان کے جاسوس بھی ہیں۔ اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔‘‘
اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ ‘‘تمہارے درمیان ان کی باتیں سننے والے بھی ہیں‘‘۔ یعنی تمہارے درمیان ایسے نیک دل اور سادہ لوح مسلمان بھی ہیں جو ان منافقین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے اِن منافقین کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی ہیں اور وہ ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ چنانچہ اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ لشکر میں موجود ہوتے اور کوئی فتنہ اٹھاتے تو عین ممکن تھا کہ تمہارے وہ ساتھی اپنی سادہ لوحی کے باعث اُن کے اٹھائے ہوئے فتنے کا شکار ہو جاتے۔
اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوتے تو سوائے فساد پھیلانے کے تمہارے درمیان کوئی اور اضافہ نہ کرتے، اور تمہارے لئے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش میں تمہاری صفوں کے درمیان دوڑے دوڑے پھرتے۔ اور خود تمہارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کے مطلب کی باتیں خوب سنتے ہیں ، اوراﷲ ان ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے
لَقَدِ ابْتَغَوُاْ الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُواْ لَكَ الأُمُورَ حَتَّى جَاء الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ
تشریح آیت 48: لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَۃَ مِنْ قَبْلُ : ‘‘یہ پہلے بھی فتنہ اٹھاتے رہے ہیں‘‘
یاد رہے کہ یہی لفظ ‘‘فتنہ‘‘ اس حدیث میں بھی آیا ہے جس کا ذکر علمائے سوء کے کردار کے سلسلے میں قبل ازیں آیت 34 کے ضمن میں ہو چکا ہے: «عُلَمَاؤُھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَہُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ» یعنی ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین لوگ ہوں گے‘ فتنہ ان ہی میں سے برآمد ہو گا اور ان ہی میں پلٹ جائے گا‘‘۔ یعنی وہ آپس میں لڑائی جھگڑوں‘ فتویٰ پردازیوں اور تفرقہ بازیوں میں مصروف ہوں گے۔
وَقَلَّـبُوْا لَکَ الْاُمُوْرَ: ‘‘اور (اے نبی !) آپ کے لیے معاملات کو الٹ پلٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں‘‘
یہ لوگ اپنی امکانی حد تک کوشش کرتے رہے ہیں کہ آپ کے معاملات کو تلپٹ کر دیں۔
حَتّٰی جَآءَ الْحَقُّ وَظَہَرَ اَمْرُ اللّٰہِ وَہُمْ کٰرِہُوْنَ: ‘‘یہاں تک کہ حق آ گیا اور اللہ کا امر غالب ہو گیا اور انہیں یہ پسند نہیں تھا۔‘‘
یعنی جزیرہ نمائے عرب کی حد تک ان لوگوں کی خواہشوں اور کوششوں کے علی الرغم اللہ کا دین غالب ہو گیا۔
ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، اور یہ تمہیں نقصان پہنچانے کیلئے معاملا ت کی الٹ پھیر کرتے رہے ہیں ، یہاں تک کہ حق آیا، اﷲ کا حکم غالب ہوا، اور یہ کڑھتے رہ گئے
وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ
تشریح آیت 49: وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّــقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَلاَ تَفْتِنِّیْ: ‘‘اور ان میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دے دیجیے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے۔‘‘
یہ منافق اور مردود شخص جُد بن قیس تھا (لعنۃ اللہ علیہ)۔ جب رسول اللہ نے غزوه تبوک کے لیے تیاری کا اعلان فرمایا تو یہ شخص آپ کے پاس حاضر ہوا اور عجیب استہزائیہ انداز میں آپ سے رخصت چاہی کہ حضور مجھے تو رہنے ہی دیں‘ کیونکہ میں حسن پرست قسم کا انسان ہوں اور لشکر جا رہا ہے شام کے علاقے کی طرف‘ جہاں کی عورتیں بہت حسین ہوتی ہیں۔ میں وہاں کی خوبصورت عورتوں کو دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ سکوں گا اور فتنہ میں مبتلا ہو جاؤں گا‘ لہٰذا آپ مجھے اس فتنے میں مت ڈالیں اور مجھے پیچھے ہی رہنے دیں۔
اَلاَ فِی الْْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا: ‘‘آگاہ ہو جاؤ فتنے میں تو یہ لوگ پڑ چکے۔‘‘
یعنی یہ شخص اور اس کے دوسرے ساتھی تو پہلے ہی بد ترین فتنے کا شکار ہو چکے ہیں جو اس طرح کے بہانے تراشنے کی جسارت کررہے ہیں۔ ان کا یہ رویہ جس سوچ کی غمازی کر رہا ہے اس سے مزید بڑا فتنہ اور کون سا ہو گا!
وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌ بِالْکٰفِرِیْنَ: ‘‘اور یقینا جہنم ان کافروں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
اور انہی میں وہ صاحب بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ : ’’ مجھے اجازت دیجئے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالئے۔ ‘‘ ارے فتنے ہی میں تو یہ خود پڑے ہوئے ہیں ! اور یقین رکھو کہ جہنم سارے کافروں کو گھیرے میں لینے والی ہے
إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُواْ قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَيَتَوَلَّواْ وَّهُمْ فَرِحُونَ
تشریح آیت ۵۰: اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْٔہُمْ: ‘‘(اے نبی ) اگر آپ کو کوئی اچھی بات پہنچتی ہے تو انہیں وہ بری لگتی ہے۔‘‘
اگر آپ کو کہیں سے کوئی کامیابی ملتی ہے‘ کوئی اچھی خبر آپ کے لیے آتی ہے تو انہیں یہ سب کچھ ناگوار لگتاہے۔
وَاِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّــقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ: ‘‘اور اگر آپ کو کوئی تکلیف آ جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنا معاملہ پہلے ہی درست کر لیا تھا‘‘
کہ ہم کوئی ان لوگوں کی طرح بے وقوف تھوڑے ہیں‘ ہم نے تو پہلے ہی ان برے حالات سے اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیا تھا۔
وَیَتَوَلَّوْا وَّہُمْ فَرِحُوْنَ: ‘‘اور وہ لوٹ جاتے ہیں خوشیاں مناتے ہوئے۔‘‘
وہ اس صورتِ حال میں بڑے شاداں و فرحاں پھرتے ہیں کہ مسلمانوں پر مصیبت آگئی اور ہم بچ گئے۔
اگلی دو آیات معرکہ حق و باطل میں ایک بندۂ مؤمن کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہیں۔ اس لیے ہر مسلمان کو یہ دونوں آیات زبانی یاد کر لینی چاہئیں۔
اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں دکھ ہوتا ہے، اور اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتے ہیں کہ : ’’ ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کر لیا تھا۔ ‘‘ اور (یہ کہہ کر) بڑے خوش خوش واپس چلے جاتے ہیں
قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلاَّ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلاَنَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
تشریح آیت 51: قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ہُوَ مَوْلٰــنَا: ‘‘آپ کہہ دیجیے کہ ہم پر کوئی مصیبت نہیں آ سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہو۔ وہی ہمارا مولا ہے۔‘‘
ہم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اللہ ہی کی مرضی اور اجازت سے آتی ہے۔ اس کے اذن کے بغیر کائنات میں ایک پتابھی نہیں ہل سکتا۔ وہ ہمارا کارساز اور پروردگار ہے۔ اگر اس کی مشیت ہو کہ ہمیں کوئی تکلیف آئے تو سر آنکھوں پر ع: ‘‘سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے‘‘۔ جو اس کی رضا ہو ہم بھی اسی پر راضی ہیں۔ اگر اُس کی طرف سے کوئی تکلیف آ جائے تو اس میں بھی ہمارے لیے خیر ہے ع: ‘‘ہرچہ ساقی ٔما ریخت عین الطاف است‘‘ (ہمارا ساقی ہمارے پیالے میں جو بھی ڈال دے اس کا لطف وکرم ہی ہے)۔ محبوب کی شمشیر سے ذبح ہونا یقینا بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز کسی غیر کے نصیب میں کیوں ہو‘ جبکہ ہماری گردنیں ہر وقت اس سعادت کے لیے حاضر ہیں :
نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت
سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی!
وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ: ‘‘اور اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے اہل ایمان کو۔‘‘
کہہ دو کہ : ’’ اﷲ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے، ہمیں اُس کے سوا کوئی اور تکلیف ہرگز نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ہمارا رکھوالا ہے، اور اﷲ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیئے۔ ‘‘
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُواْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ
تشریح آیت ۵۲: قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ: ‘‘(ان سے) کہیے کہ تم ہمارے بارے میں کس شے کا انتظار کر سکتے ہو سوائے دو نہایت عمدہ چیزوں میں سے کسی ایک کے!‘‘
الْحُسْنَـیَیْنِ‘ الحُسْنٰی کی تثنیہ ہے‘ جو اَحْسَن کی مؤنث ہے۔ یہ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ چنانچہ الْحُسْنَـیَیْنِ کے معنی ہیں دو نہایت احسن صورتیں۔ جب کوئی بندۂ مؤمن اللہ کے راستے میں کسی مہم پر نکلتا ہے تو اس کے لیے تو دونوں امکانی صورتیں ہی احسن ہیں‘ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں تو وہ بھی احسن :
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت‘ نہ کشور کشائی!
(اقبال)
اور اگر کامیاب ہو کر آ جائیں تو بھی احسن۔ دونوں صورتوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ تیسری کوئی صورت تو ہے ہی نہیں۔ لہٰذا ایک بندۂ مؤمن کو خوف کاہے کا؟
جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر
جب وقت شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں!
وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہ اَوْ بِاَیْدِیْنَا: ‘‘اور (اے منافقو!) ہم منتظر ہیں تمہارے بارے میں کہ اللہ تمہیں پہنچائے کوئی عذاب اپنے پاس سے یا ہمارے ہاتھوں‘‘
ہمیں بھی تمہارے بارے میں انتظار ہے کہ تمہارے کرتوتوں کے سبب اللہ تعالیٰ تم پر خود کوئی عذاب نازل کر دے یا عین ممکن ہے کہ کبھی ہمیں اجازت دے دی جائے اور ہم تمہاری گردنیں اڑائیں۔
فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ: ‘‘تو تم بھی انتظار کرو‘ ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
کہہ دو کہ :’’ تم ہمارے لئے جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ (آخر کار) دو بھلائیوں میں سے ایک نہ ایک بھلائی ہمیں ملے۔ اور ہمیں تمہارے بارے میں انتظار اس کا ہے کہ اﷲ تمہیں اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سزا دے۔ بس اب انتظار کرو، ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں ۔ ‘‘
قُلْ أَنفِقُواْ طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ
تشریح آیت 53: قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ: ‘‘کہہ دیجئے کہ چاہے خوشی سے خرچ کرو یا مجبوری سے‘ تم سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ تم نافرمان لوگ ہو۔‘‘
یہاں منافقین کے ایک دوسرے حربے کا ذکر ہے کہ کچھ مال اسباب چندے کے طور پر لے آئے اور بہانہ بنایا کہ مجھے فلاں فلاں مجبوری ہے‘ میں خود تو جانے سے معذور ہوں‘ مجھے رخصت دے دیں اور یہ سازو سامان قبول کر لیں۔ ایسی صورتِ حال کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اب جبکہ جہاد کے لیے بنفس نفیس نکلنا فرضِ عین ہے‘ اس صورتِ حال میں روپیہ پیسہ اور سازو سامان اس کا بدل نہیں ہو سکتا۔
کہہ دو کہ : ’’ تم اپنا مال چاہے خوشی خوشی چندے میں دو، یا بد دلی سے وہ تم سے ہر گز قبو ل نہیں کیا جائے گا۔ تم ایسے لوگ ہو جو مسلسل نافرمانی کرتے رہے ہو۔ ‘‘
وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلاَّ أَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلاَ يَأْتُونَ الصَّلاَةَ إِلاَّ وَهُمْ كُسَالَى وَلاَ يُنفِقُونَ إِلاَّ وَهُمْ كَارِهُونَ
تشریح آیت 54: وَمَا مَنَعَہُمْْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ اِلآَّ اَنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہ: ‘‘اور نہیں مانع ہوئی کوئی چیز کہ ان سے ان کے نفقات (اموال کا خرچ کرنا) کو قبول کیا جاتا‘ مگر یہ کہ انہوں نے کفر کیا ہے اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ‘‘
وَلاَ یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلاَّ وَہُمْ کُسَالٰی وَلاَ یُنْفِقُوْنَ اِلاَّ وَہُمْ کٰرِہُوْنَ: ‘‘اور وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر بہت ہی کسل مندی سے اور خرچ نہیں کرتے مگر کراہت کے ساتھ۔‘‘
یعنی اب جو چندہ یہ لوگ پیش کر رہے ہیں وہ تو جان بچانے کے لیے دے رہے ہیں کہ ہم سے سازو سامان لے لیا جائے اور ہمیں اس مہم پر جانے سے معاف رکھا جائے۔
اور ان کے چندے قبول کئے جانے میں رکاوٹ کی کوئی اور وجہ اس کے سو انہیں ہے کہ انہوں نے اﷲ اور اُس کے رسول کے ساتھ کفر کا معاملہ کیا ہے، اور یہ نماز میں آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں ، اور (کسی نیکی میں ) خرچ کرتے ہیں تو برا مانتے ہوئے خرچ کرتے ہیں
فَلاَ تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلاَ أَوْلاَدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ
تشریح آیت ۵۵: فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْ: ‘‘تو (اے نبی !) آپ کو ان کے اموال اور ان کی اولاد سے تعجب نہ ہو۔‘‘
ان کو دیکھ کر آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مال و دولت اور اولاد کی کثرت ان کے لیے اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے‘ بلکہ ایسے لوگوں کو تو اللہ ایسی نعمتیں اس لیے دیتا ہے کہ ان کا حساب اسی دنیا میں بے باق ہو جائے اور آخرت میں ان کے لیے کچھ نہ بچے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات دنیا کی انہی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ انسان کے لیے باعث عذاب بنا دیتا ہے۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا: ‘‘اللہ تو چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعے سے انہیں دُنیوی زندگی میں عذاب دے‘‘
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں کہ یہی اولاد جس کو انسان بڑے لاڈ پیار اور ارمانوں سے پال پوس کر بڑا کرتا ہے اس کے لیے سوہانِ روح بن جائے اور یہی مال و دولت جسے وہ جان جوکھوں میں ڈال کر جمع کرتا ہے اس کی جان کا وبال ثابت ہو۔
وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ: ‘‘اور ان کی جانیں نکلیں اسی کفر کی حالت میں۔‘‘
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں اپنی دولت ہی سے لپٹے رہیں اور اپنی اولاد کی محبت میں اس قدر مگن رہیں کہ جیتے جی انہیں آنکھ کھول کر حق کو دیکھنے اور پہچاننے کی فرصت ہی نصیب نہ ہو‘ اور اسی حالت میں یہ لوگ آخری عذاب کے مستحق بن جائیں۔
تمہیں ان کے مال اور اولاد (کی کثرت) سے تعجب نہیں ہونا چاہیئے۔ اﷲ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں سے ان کو دنیوی زندگی میں عذاب دے، اور ان کی جان بھی کفر ہی کی حالت میں نکلے
وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ
تشریح آیت 56: وَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنَّہُمْ لَمِنْکُمْ: ‘‘اور وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہیں۔‘‘
ہم بھی مسلمان ہیں‘ آپ لوگوں کے ساتھی ہیں‘ ہماری بات کا اعتبار کیجیے۔
وَمَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلٰـکِنَّہُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ: ‘‘لیکن (اے مسلمانو! حقیقت میں ) یہ لوگ تم میں سے نہیں ہیں‘ بلکہ اصل میں یہ ڈرے ہوئے لوگ ہیں۔‘‘
اصل میں یہ لوگ اسلام کے غلبے کے تصور سے خوفزدہ ہیں اور خوف کے مارے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں۔
یہ اﷲ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں ، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ، بلکہ وہ ڈرپوک لوگ ہیں
لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلاً لَّوَلَّوْاْ إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ
تشریح آیت ۵۷: لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلاً لَّوَلَّوْا اِلَیْہِ وَہُمْ یَجْمَحُوْنَ: ‘‘اگر یہ پالیں کہیں کوئی پناہ گاہ یا کوئی غار یا کوئی سر چھپانے کی جگہ‘ تو یہ اس کی طرف بھاگ جائیں اپنی رسیاں تڑاتے ہوئے۔‘‘
جیسے کوئی جانور خوف کے مارے اپنی رسی تڑا کر بھاگتا ہے‘ اسی طرح کی کیفیت ان پر بھی طاری ہے۔ اس اضطراری کیفیت میں اگر جزیرہ نمائے عرب میں انہیں کہیں بھی کوئی پناہ گاہ مل جاتی یا کسی بھی طرح کا کوئی ٹھکانہ جان بچانے کے لیے نظر آ جاتا تو وہ خوف کے مارے یہاں سے بھاگ گئے ہوتے۔
اگر ان کو کوئی پناہ گاہ مل جاتی، یا کسی قسم کے غار مل جاتے، یا گھس بیٹھنے کی اور کوئی جگہ، تو یہ بے لگام بھاگ کر اُدھر ہی کا رُخ کر لیتے
وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ
تشریح آیت ۵۸: وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ: ‘‘اور (اے نبی ) ان میں سے وہ بھی ہیں جو آپ پر الزام لگاتے ہیں صدقات کے بارے میں۔‘‘
زکوٰۃ و صدقات کا مال رسول اللہ خود تقسیم فرماتے تھے۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ مال کی تقسیم کے دوران ایک منافق نے آپ کو ٹوک دیا: یَا مُحَمَّدُ اعْدِل ‘‘اے محمد انصاف (کے ساتھ تقسیم) کیجیے!‘‘ اس کی مراد یہ تھی کہ آپ نا انصافی کر رہے ہیں۔ اس پر حضور کو غصہ آیا اور آپ نے فرمایا: «وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ اِذَا لَمْ اَکُنْ اَعْدِلُ… » ‘‘تم برباد ہو جاؤ‘ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اورکون کرے گا؟‘‘
فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ: ‘‘تواگر اس میں سے انہیں (خاطر خواہ) دے دیا جائے تو یہ راضی رہتے ہیں اور اگر اس میں سے انہیں (اس قدر) نہ دیا جائے تو فوراً ناراض ہو جاتے ہیں۔‘‘
اور انہی (منافقین) میں وہ بھی ہیں جو صدقات (کی تقسیم) کے بارے میں آپ کو طعنہ دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر اُنہیں صدقات میں سے (ان کی مرضی کے مطابق) دے دیا جائے تو راضی ہو جاتے ہیں ، اور اگر اُن میں سے انہیں نہ دیاجائے تو ذرا سی دیر میں ناراض ہوجاتے ہیں
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ
تشریح آیت ۵۹: وَلَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ وَرَسُوْلُہ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ: ‘‘اور اگر وہ راضی رہتے اس پر جو کچھ دیا انہیں اللہ نے اور اس کے رسول نے‘ اور وہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے‘ عنقریب اللہ اور اس کے رسول ہمیں (پھر بھی) اپنے فضل سے نوازتے رہیں گے‘ یقینا ہم اللہ کی طرف رغبت کرنے والے ہیں (تو ان کے حق میں بہتر ہوتا)۔‘‘
اگر ان لوگوں کی سوچ مثبت ہوتی اور وہ اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں اچھا گمان رکھتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ اب وہ مشہور آیت آ رہی ہے جس میں زکوٰۃ کے مصارف بیان ہوئے ہیں۔
جو کچھ بھی انہیں اﷲ اور اس کے رسول نے دے دیا تھا، کیا اچھا ہوتا کہ یہ اُس پر راضی رہتے، اور یہ کہتے کہ : ’’ اﷲ ہمارے لئے کافی ہے، آئندہ اﷲ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا، اور اُس کا رسول بھی ! ہم تو اﷲ ہی سے لو لگائے ہوئے ہیں ۔ ‘‘