بَرَاءةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
تشریحآیت ۱: بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ: ‘‘اعلانِ برا ء ت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان لوگوں کی جانب جن سے (اے مسلمانو!) تم نے معاہدے کیے تھے مشرکین میں سے۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے تمام معاہدے ختم کرنے کا دو ٹوک الفاظ میں اعلان ہے جو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کر رکھے تھے۔ یہ اعلان چونکہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا اورقطعی (categorical) انداز میں کیا گیا تھا‘ اس لیے اس کے ساتھ کچھ شرائط یا استثنائی شقوں کا ذکر بھی کیا گیا جن کی تفصیل آئندہ آیات میں آئے گی۔ سورۃ التوبہ کے ضمن میں ایک اور بات لائق توجہ ہے کہ یہ قرآن کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں ‘‘ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی جاتی۔ اس کا سبب حضرت علی نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ سورت تو ننگی تلوار لے کر یعنی مشرکین کے لیے قتل عام کا اعلان لے کر نازل ہوئی ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کی صفات کے ساتھ اس کے مضامین کی مناسبت نہیں ہے۔
(مسلمانو !) یہ اﷲ اور اُس کے رسول کی طرف سے دستبرداری کا اعلان ہے اُن تمام مشرکین کے خلاف جن سے تم نے معاہدہ کیا ہوا ہے
فَسِيحُواْ فِي الأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُواْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ
تشریحآیت ۲: فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ : ‘‘تو گھوم پھر لو اس زمین میں چار ماہ تک‘‘
یعنی اس جزیرہ نمائے عرب میں تمہیں رہنے اور گھومنے پھرنے کے لیے صرف چار مہینے کی مہلت دی جارہی ہے۔
وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ وَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ: ‘‘اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ بھی کہ اللہ کافروں کو رسوا کر کے رہے گا۔‘‘
اب ان مشرکین کے لیے اللہ کے عذاب کی آخری قسط آ کر رہے گی۔ یہ قطعی اعلان تو ایسے معاہدوں کے ضمن میں تھا جن میں کوئی میعاد معین نہیں تھی‘ جیسے عام دوستی کے معاہدے‘ جنگ نہ کرنے کے معاہدے وغیرہ۔ ایسے تمام معاہدوں کو چارہ ماہ کی پیشگی وارننگ کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔ یہ ایک معقول طریقہ تھا جو سورۃ الانفال کی آیت 58 میں بیان کردہ اصول: فَانْبِذْ اِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَاءٍ کے مطابق اختیار کیا گیا۔ یعنی معاہدے کو علی الاعلان دوسرے فریق کی طرف پھینک دیا گیا‘ اور پھر فوراً اقدام بھی نہیں کیا گیا‘ بلکہ چار ماہ کی مہلت بھی دے دی گئی۔
لہٰذا (اے مشرکو !) تمہیں چار مہینے تک اجازت ہے کہ تم (عرب کی) سرزمین میں آزادی سے گھومو پھرو، اور یہ بات جان رکھو کہ تم اﷲ کو عاجز نہیں کر سکتے، اور یہ بات بھی کہ اﷲ اب کافروں کو رسوا کرنے والا ہے
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
تشریحٓیت ۳: وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ: ‘‘اور اعلانِ عام ہے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے لوگوں کے لیے حج اکبر کے دن‘‘
عمرے کو چونکہ ‘‘حج اصغر‘‘ کہا جاتا ہے اس لیے یہاں عمرے کے مقابلے میں حج کو ‘‘حج اکبر‘‘ کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ حج اگر جمعہ کے دن ہو تو وہ حج اکبرہوتا ہے‘ ایک بے بنیاد بات ہے۔
اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہ: ‘‘کہ اللہ بری ہے مشرکین سے اور اس کا رسول بھی۔‘‘
یہ اعلان چونکہ حج کے اجتماع میں کیا گیا تھا اور حج کے لیے جزیرہ نمائے عرب کے تمام اطراف و اکناف سے لوگ آئے ہوئے تھے‘ لہٰذا اس موقع پر اعلان کرنے سے گویا عرب کے تمام لوگوں کے لیے اعلان عام ہو گیا کہ اب اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں رہا۔
فَاِنْ تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْرٌ لَّــکُمْ: ‘‘تواگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘
وَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ: ‘‘اور اگر تم روگردانی کرو گے تو سن رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔‘‘
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ: ‘‘اور (اے نبی!) بشارت دے دیجیے ان کافروں کو دردناک عذاب کی۔‘‘
اور حجِ اکبر کے دن اﷲ اور اُس کے رسول کی طرف سے تمام انسانوں کیلئے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اﷲ بھی مشرکین سے دست بردار ہو چکا ہے، اور اُس کا رسول بھی۔ اب (اے مشرکو !) اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہو گا، اور اگر تم نے (اب بھی) منہ موڑے رکھا تو یادرکھو کہ تم اﷲ کو عاجز نہیں کر سکتے، اورتمام کافروں کو ایک دُکھ دینے والے عذاب کی ’’ خوشخبری ‘‘ سنا دو
إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُواْ عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّواْ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
تشریحٓیت 4: اِلاَّ الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ: ‘‘سوائے اُن مشرکین کے جن سے (اے مسلمانو!) تم نے معاہدے کیے تھے‘‘
ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْئًا وَّلَمْ یُظَاہِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا: ‘‘پھر انہوں نے کچھ کمی نہیں کی تمہارے ساتھ‘ اور نہ تمہارے خلاف مدد کی کسی کی بھی‘‘‘
یہاں میعادی معاہدوں کے سلسلے میں استثناء کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ یعنی مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے ایسے معاہدے جو کسی خاص مدت تک ہوئے تھے‘ ان کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے کہ اگر یہ مشرکین تمہارے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کو بخوبی نبھا رہے ہیں اور تمام شرائط کی پابندی کر رہے ہیں.
فَاَتِمُّوْٓا اِلَیْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلٰی مُدَّتِہِمْ: ‘‘تو مکمل کرو اُن کے ساتھ اُن کا معاہدہ مقررہ مدت تک۔‘‘
یعنی مشرکین کے ساتھ ایک خاص مدت تک تمہارا کوئی معاہدہ ہوا تھا اور ان کی طرف سے ابھی تک اس میں کسی قسم کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی‘ تو اس معاہدے کی جو بھی مدت ہے وہ پوری کرو۔ اس کے بعد اس معاہدے کی تجدید نہیں ہو گی۔
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ: ‘‘یقینا اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
البتہ (مسلمانو !) جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا، پھر ان لوگوں نے تمہارے ساتھ عہد میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اور تمہارے خلاف کسی کی مدد بھی نہیں کی، تو اُن کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کی مدت کو پورا کرو۔ بیشک اﷲ احتیاط کرنے والوں کو پسند کرتا ہے