فہرست مضامین > حج >احرام باندهنے كے بعد رُك جانے كا ذكر
احرام باندهنـ كـ بعد رُك جانے كا ذكر
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
تشریحآیت 96: وَلَتَجِدَنَّہُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ: اور تم انہیں پاؤ گے تمام انسانوں سے زیادہ حریص اس (دنیا کی) زندگی پر۔
وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا: حتیٰ کہ مشرکوں سے بھی زیادہ حریص۔
یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ مشرکین نے اہل ایمان کے ساتھ مقابلہ کیا تو کھل کر کیا، میدان میں آ کر ڈٹ کر کیا، اپنی جانیں اپنے باطل معبودوں کے لیے قربان کیں، جبکہ یہودیوں میں یہ ہمت و جرأت قطعاً نہیں تھی کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آ سکیں۔ ان کے بارے میں سورۃ الحشر میں الفاظ وارد ہوئے ہیں: لَا یُقَاتِلُوْنَـکُمْ جَمِیْعًا اِلاَّ فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآء جُدُرٍ. (آیت: 14) «یہ سب مل کر بھی تم سے جنگ نہ کر سکیں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کی اوٹ سے» ۔ چنانچہ یہود کبھی بھی سامنے آ کر مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ اس لیے کہ انہیں اپنی جانیں بہت عزیز تھیں۔
یَوَدُّ اَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ: ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ کسی طرح اس کی عمر ہزار برس ہو جائے۔
وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ: حالانکہ نہیں ہے اس کو بچانے والا عذاب سے اس قدر جینا۔
اگر ان کو ان کی خواہش کے مطابق طویل زندگی دے بھی دی جائے تو یہ انہیں عذاب سے تو چھٹکارا نہیں دلا سکے گی۔ آخرت تو بالآخر آنی ہے اور انہیں ان کے کرتوتوں کی سزا مل کر رہنی ہے ۔
وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ: اور اللہ دیکھ رہا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔
(بلکہ) یقینا تم ان لوگوں کو پاؤ گے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ ۔ ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے، حالانکہ کسی کا بڑی عمر پالینا اسے عذاب سے دور نہیں کر سکتا ۔ او ر یہ جو عمل بھی کرتے ہیں اﷲ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے