May 7, 2024

قرآن کریم > الـبلد >sorat 90 ayat 6

يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُبَدًا

کہتا ہے کہ : ’’ میں نے ڈھیروں مال اُڑا ڈالا ہے۔‘‘

آيت 6: يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُبَدًا: «كهتا هے ميں نے تو ڈھيروں مال خرچ كرڈالا۔»

        اس فقرے ميں سردارانِ قريش كى ذهنيت كى جھلك نظر آتى هے۔ يه لوگ بھلائى اور نيكى كے كام اكثر و بيشتر جذبه مسابقت كے تحت كرتے تھے اور پھر اپنى نيكيوں كا خوب چرچا كرتے اور شيخياں بگھارتے تھے۔ حتى كه ان ميں سے اكثر لوگوں كے ايمان نه لانے كا سبب بھى يهى جذبه مسابقت تھا۔ ظاهر هے وه لوگ حضور صلى الله عليه وسلم كو اپنے خاندان كے مد مقابل خاندان كا ايك فرد سمجھتے تھے اور اس حيثيت سے آپ صلى الله عليه وسلم كے سامنے سر تسليم خم كرنا انهيں كسى قيمت پر گوارا نهيں تھا۔ اس حوالے سے ابو جهل كا اقرارى بيان تو تاريخ كے ريكارڈ پر موجود هے۔ اس سے جب پوچھا گيا كه كيا تمهارے خيال ميں محمد (صلى الله عليه وسلم) جھوٹے هيں؟ تو اس نے جواب ديا كه نهيں، انهوں نے كبھى جھوٹ نهيں بولا۔ اس پر پوچھنے والے نے سوال كيا كه پھر تم ان پر ايمان كيوں نهيں لے آتے؟ اس پر اس نے جو جواب ديا اس كا خلاصه يه هے كه همارے خاندان كا بنو هاشم كے ساتھ پشتوں سے مقابله چلا آرها هے۔ انهوں نے غرباء كو كھانے كھلائے تو هم نے ان سے بڑھ كر كھانے كھلائے۔ اگر وه حجّاج كى خدمت كرنے ميں پيش پيش رهے تو اس ميدان ميں بھى هم نے انهيں آگے نهيں نكلنے ديا۔ يوں اب تك هم ان كے ساتھ كندھے سے كندھا ملائے چلے آرهے هيں۔ اب اگر هم ان كى نبوت كو تسليم كرليں تو هم هميشه كے ليے ان كے غلام بن جائيں گے اور يه صورت حال كم از كم مجھے كسى قيمت پر قابلِ قبول نهيں۔

        آيت زير مطالعه ميں سرداران قريش كے اسى طرز عمل كى تصوير دكھائى گئى هے كه اگر ان ميں سے كوئى شخص كبھى بھلائى كا كوئى كام سر انجام دے ليتا هے تو جگه جگه اس كا تذكره كرتا اور شيخياں بگھارتا پھرتا هے كه فلاں كام ميں ميں نے ڈھيروں مال كھپا ڈالا هے۔

UP
X
<>