May 18, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 34

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ 

اے ایمان والو ! (یہودی) احبار اور (عیسائی) راہبوں میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں ، اور دوسروں کو اﷲ کے راستے سے روکتے ہیں ۔ اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں ، اور اُس کو اﷲ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن کو ایک دردناک عذاب کی ’’ خوشخبری ‘‘ سنادو

 آیت 34:  یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ: ‘‘اے اہل ایمان‘ یقینا بہت سے علماء اور درویش ہڑپ کرتے ہیں لوگوں کے مال باطل طریقے سے‘‘

            مختلف مسلمان اُمتوں میں مذہبی پیشواؤں کے لیے مختلف نام اور القاب رائج رہے ہیں۔ بنی اسرائیل کے ہاں انہیں احبار اور رہبان کہا جاتا تھا۔  آیت زیر نظر کے مطابق اس طبقے میں اکثریت ایسے لوگوں کی رہی ہے جو باطل اور ناجائز ذرائع سے مال و دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے کے مکروہ دھندے میں ملوث رہے ہیں۔ ایک عام دنیا دار آدمی جائز طریقے سے مال و دولت کماتا ہے یا جائیداد بناتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر ایک ایسا شخص جو دین کی خدمت میں مصروف ہے اور اسی حقیقت سے جانا پہچانا جاتا ہے‘ اگر وہ بھی مال و دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے میں مشغول ہو جائے‘ اور مزید یہ کہ دین کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی دینی حیثیت کو نیلام کرتے ہوئے لوگوں کے مال ہڑپ کرنے لگے اور مال و دولت جمع کرنیہی کو اپنا مقصد ِزندگی بنا لے‘ تو ایسا انسان آسمان کی چھت کے نیچے بد ترین انسان ہو گا۔ اپنی امت کے علماء کے بارے میں حضور کی ایک بہت عبر ت انگیز حدیث ہے :

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: «یُـوْشِکُ اَنْ یَأْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اسْمُہ‘ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلاَّ رَسْمُہ‘ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی‘ عُلَمَاؤُھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ‘ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ»

حضرت علی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ‘‘مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا جب اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا اورقرآن میں سے اس کے رسم الخط کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ان کی مسجدیں بہت آباد (اور شاندار) ہوں گی مگر وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے‘ فتنہ انہی میں سے برآمد ہو گا اور ان ہی میں لوٹ جائے گا۔‘‘

            وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ: ‘‘اور روکتے ہیں لوگوں کو اللہ کے راستے سے۔‘‘

            جب کوئی دینی تحریک اٹھتی ہے‘ کوئی اللہ کا مخلص بندہ لوگوں کو دین کی طرف بلاتا ہے‘ تو ان مذہبی پیشواؤں کو اپنی مسندیں خطرے میں نظر آتی ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے عقیدت مند انہیں چھوڑ کر کسی دوسری دعوت کی طرف متوجہ ہوں‘ کیونکہ انہی عقیدت مندوں کے نذرانوں ہی سے تو ان کے دولت کے انباروں میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے اور ان کی جائیدادیں بن رہی ہوتی ہیں۔ وہ آخر کیونکر چاہیں گے کہ اُن کے نام لیوا کسی دوسری دعوت پر لبیک کہیں۔

            وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ: ‘‘اور وہ لوگ جو جمع کرتے ہیں اپنے پاس سونا اور چاندی اور خر چ نہیں کرتے اس کو اللہ کی راہ میں‘ تو ان کو بشارت دے دیجیے درد ناک عذاب کی۔‘‘

            اس  آیت کے حوالے سے حضرت ابو ذر غفاری کی ذاتی رائے یہ تھی کہ سونا اور چاندی اپنے پاس رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ مگر دوسرے صحابہ کرام‘ حضرت ابو ذر غفاری کی اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ چنانچہ دین کا عام قانون اس سلسلے میں یہی ہے کہ اگر کسی نے کوئی مال جائز طریقے سے کمایا ہو اور وہ اس میں سے زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہو تو اس مال کو وہ اپنے پاس رکھا سکتا ہے‘ چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ ہو اور چاہے وہ سونے یا چاندی ہی کی شکل میں ہو۔ ایسا مال ایک شخص کی موت کے بعد اس کے ورثاء کو جائز مال کے طور پر قانونِ وراثت کے مطابق منتقل بھی ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ قانونِ وراثت خود اس بات پر دلیل ہے کہ مال و دولت کو اپنی ملکیت میں رکھنا ناجائز نہیں ہے‘ کیونکہ اگر مال جمع نہیں ہو گا تو وراثت کس چیز کی ہو گی اور قانونِ وراثت کا عملاً کیا مقصد رہ جائے گا؟ اس لحاظ سے قرآن کے وہ احکام روحانی اور اخلاقی تعلیم کے زمرے میں آتے ہیں جن میں بار بار مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سلسلے میں: قُلِ الْـعَفْوَ. ( البقرۃ: 219) کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ یعنی جو بھی زائد از ضرورت ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان کے دورِخلافت میں حضرت ابو ذر غفاری کی مخالفت کے باوجود قانونی نقطہ نظر سے یہی فیصلہ ہوا تھا کہ سونا‘ چاندی اپنے پاس رکھنا مطلقاً حرام نہیں ہے‘ مگر حضرت ابو ذر غفاری اپنی رائے میں کسی قسم کی لچک پیدا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ چونکہ آپ کے اختلاف کی شدت کے باعث مدینہ کے ماحول میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو رہی تھی‘ اس لیے حضرت عثمان نے آپ کو حکم دیا کہ وہ مدینہ سے باہر چلے جائیں۔ اس پر آپ مدینہ سے نکل گئے اور صحرا میں ایک چھونپڑی بنا کر اس میں رہنے لگے۔

            میرے نزدیک اس آیت کا حکم احبار اوررہبان یعنی مذہبی پیشواؤں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جنہوں نے اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں دین کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہیں اور اُن کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ ایسے مذہبی پیشواؤں کو لوگ ہدیے دیتے ہیں اور اُن کی مالی معاونت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کر سکیں۔ جیسے حضور خود بیت المال سے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے‘ ازواجِ مطہرات کو نان نفقہ بھی دیتے تھے اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتے تھے‘ مگر بیت المال سے کچھ میسر نہ ہونے کی صورت میں فاقے بھی کرتے تھے۔ اسی طرح خلفائے راشدین کی مثال بھی ہے۔ چنانچہ ایسے مذہبی پیشواؤں پر بھی لازم ہے کہ وہ دوسروں کے ہدیے اور وظائف صرف معروف انداز میں اپنی اور اپنے زیر ِکفالت افراد کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے استعمال میں لائیں۔ لیکن اگر یہ لوگ اپنی مذکورہ حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت اکٹھی کرنا اورجائیدادیں بنانا شروع کر دیں‘ اور پھر یہ جائیدادیں قانونِ وراثت کے تحت اُن کے ورثاء کو منتقل ہوں تو ایسی صورت میں اِن لوگوں پر اس  آیت کے احکام کا حرف بہ حرف انطباق ہو گا۔ چنانچہ آج بھی اگر آپ علمائے حق اور علمائے سوء کے بارے میں معلوم کرنا چاہیں تو میرے نزدیک یہ  آیت اس کے لیے ایک طرح کا لٹمس ٹیسٹ (litmus test) ہے۔ اگر کوئی مذہبی پیشوا یا عالم اپنے دینی کیرئیر کے نتیجے میں جائیداد بنا کر اور اپنے پیچھے دولت چھوڑ کرمرا ہو تو وہ بلاشک و شبہ علمائے سوء میں سے ہے۔ 

UP
X
<>