May 3, 2024

قرآن کریم > الانشقاق >sorah 84 ayat 6

يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ

اے انسان ! تو اپنے پروردگار کے پاس پہنچنے تک مسلسل کسی محنت میں لگا رہے گا، یہاں تک کہ اُس سے جاملے گا

آيت 5: يَا أَيُّهَا الإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلاقِيهِ: «اے انسان! تو مشقت پر مشقت برداشت كرتے جارها هے اپنے رب كى طرف، پھر تو اس سے ملنے والا هے۔»

        يه دنيا انسان كے ليے دارالسجن يعنى مشقتوں كا گھر هے۔ انسانى زندگى كى اس تلخ حقيقت كو سورة البلد ميں يوں بيان فرمايا گيا: (لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ فِي كَبَدٍ) كه انسان تو پيدا هى مشقت ميں كيا گيا هے۔ گويا مشقتيں برداشت كرنا، دكھ اٹھانا اور سختياں جھيلنا انسان كا مقدر هے۔ اس سے كسى انسان كو رست گارى نهيں۔ مزدور هے تو وه صبح سے شام تك جسمانى سختياں سهه رها هے۔ كارخانه دار هے تو انتظامى گتھيوں كو سلجھانے ميں جگر خون كررها هے۔ اگر كوئى كسى دفتر كى كرسى پر بيٹھا هے تو ذهنى مشقت كى چكى ميں پس رها هے۔ پھر اپنى اور اهل و عيال كى بيمارياں، معاشى مشكلات، معاشرتى الجھنيں، مال وجان كى حفاظت كى فكر وغيره كى صورت ميں ذهنى و نفسياتى پريشانياں الگ هيں جو هر انسان كے گلے كا هار بنى هوئى هيں۔ دوسروں سے مسابقت اور مقابلے كا غم اس كے علاوه هے جو هر انسان نے اپنے دل و دماغ  ميں كسى نه كسى سطح پر ضرور پال ركھا هے۔ پيدل چلنے والا سائيكل سوار كو رشك بھرى نظروں سے ديكھتا هے، سائيكل سوار كار والے كے حسد ميں مبتلا هے۔ چھوٹى كار والا بڑى كار والے سے جلن كا شكار هے۔ غرض مشقت، تكليف يا غم كى نوعيت تو مختلف هوسكتى هے مگر كوئى انسان ايسا نهيں جو كسى نه كسى دكھ، پريشانى يا مشقت ميں مبتلا نه هو۔ ان مشقتوں اور پريشانيوں كا سامنا انسان كا روز اول سے هے اور رهتى دنيا تك رهے گا۔ جيتے جى كوئى انسان اس سے چھٹكارا حاصل نهيں كرسكتا۔ مرزا غالب نے اس حوالے سے بڑے پتے كى بات كهى هے:

قيد حيات وبند غم اصل ميں دونوں ايك هيں       موت سے پهلے آدمى غم سے نجات پائے كيوں

ان مشقتوں اور مصيبتوں ميں گھرى انسانى زندگى كى يه سختياں اور پريشانياں اپنى جگه، ليكن انسان كا اصل مسئله اس سے كهيں زياده گھمبير اور پريشان كن هے۔ اور وه مسئله هے كه:

اب تو گھبرا كے يه كهتے هيں كه مرجائيں گے    مر كے چين نه پايا تو كدھر جائيں گے؟

(ابراهيم ذوق)

        انسان كے اخروى احتساب كا تصور ذهن ميں لائيں اور پھر موازنه كريں كه باقى جان داروں كے مقابلے ميں انسان كس قدر مشكل ميں هے۔ ايك بار بردار جانور كى زندگى كا معمول چاهے جتنا بھى مشكل هو ليكن اس كى مشقت اور تكليف اس كى زندگى كے ساتھ ختم هوجاتى هے۔ ظاهر هے ايك بيل جب هل يا رهٹ چلاتے چلاتے مرجاتا هے تو اس مشقت سے هميشه كے ليے چھوٹ جاتا هے۔ ليكن اس  كے مقابلے ميں ايك انسان هے جو كوفت پر كوفت برداشت كرتا اور تكليف پر تكليف جھيلتا جب اس دنيا سے جائے گا تو اسے اپنے رب كے سامنے كھڑے هوكر اپنى دنيوى زندگى كے ايك ايك پَل كا حساب دينا هوگا۔ اس ضمن ميں حضور صلى الله عليه وسلم كا فرمان هے:

(لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ)

«ابن آدم كے پاؤں قيامت كے روز اپنے رب كے حضور اپنى جگه سے هل نهيں سكيں گے جب تك اس سے پانچ چيزوں كا حساب نه لے ليا جائے: اس كى عمر كے بارے ميں كه كهاں فنا كى؟ اس كى جوانى (كى قوتوں، صلاحيتوں اور امنگوں) كے دور كے بارے ميں كه كيسے گزارا؟ مال كهاں سے كمايا اور كهاں خرچ كيا؟ (حلال ذرائع سے كمايا يا حرام طريقے سے، اور اللّوں تللّوں ميں خرچ كيا يا ادائے حقوق كے ليے؟) اور جو علم حاصل هوا تھا اس پر كتنا عمل كيا؟»

        يعنى دنيا ميں بار بردارى بھى كرو، جسمانى، ذهنى اور نفسياتى اذيتيں بھى برداشت كرو۔ مال و جان اور اولاد سے متعلق رنگا رنگ صدمے جھيلتے جھيلتے زندگى بھر كانٹوں پر بھى لوٹتے رهو اور پھر مرنے كے بعد ايك هستى كے سامنے كھڑے هوكر پل پل كا حساب بھى دو جس سے تمهارے قلوب و اذهان كى گهرائيوں ميں پيدا هونے والے جذبات وخيالات بھى پوشيده نهيں۔ يه هے «انسان» كى اصل ٹريجڈى!

        يه مرحله ايك انسان كے ليے ايسا مشكل هے كه اسے ياد كركے حضرت ابوبكر صديق رضى الله عنه اكثر رويا كرتے تھے اور كها كرتے تھے كه كاش ميں ايك چڑيا هوتا!

        ديكھا جائے تو حضور صلى الله عليه وسلم كے درج بالا فرمان ميں مذكور سوالات ميں سے آخرى سوال سب سے مشكل هوگا۔ اگر كسى انسان تك قرآن كى يه دعوت پهنچ هى نهيں پائى تو ممكن هے كه اس كى طرف سے كوئى عذر بھى قبول هوجائے۔ (ايسى صورت ميں اس كوتاهى كا كچھ نه كچھ بوجھ ان لوگوں پر بھى ضرور پڑے گا جنهوں نے اسے دعوت پهنچانے ميں تساهل برتا) ليكن جن لوگوں تك قرآن كى دعوت پهنچ گئى اور انهوں نے اپنى استعداد كے مطابق قرآن كے پيغام كو سمجھ بھى ليا تو ظاهر هے ان كے ليے اس آخرى سوال كا جواب دينا بهت مشكل هوگا۔

UP
X
<>