May 17, 2024

قرآن کریم > الانشقاق >sorah 84 ayat 13

إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا

پہلے وہ اپنے گھر والوں کے درمیان بہت خوش رہتا تھا

آيت 13: إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا: «يقيناً (دنيا ميں) وه اپنے اهل و عيال ميں بهت خوش وخرم تھا۔»

        دنيا ميں وه حرام كى كمائى سے اپنے اهل و عيال كے ساتھ عيش كرتا رها اور آخرت كے محاسبے كا كبھى تصور بھى ذهن ميں نه لايا۔ يهاں پر ايك نكته يه بھى سمجھ ليجيے كه اگر كوئى شخص اپنى روزى تو سو فيصد حلال ذرائع سے كمارها هے ليكن وه الله كے دين كا حق ادا نهيں كررها تو ايسے شخص كى حلال ذرائع سے كمائى هوئى وه روزى بھى حلال نهيں۔

        اس ليے كه اس نے اپنى روزى كمانے كى اس تگ و دو ميں جو وقت، صلاحيتيں اور وسائل صرف كيے هيں ان ميں دين كے حقوق كا حصه بھى شامل تھا۔ گويا اپنے وقت، وسائل اور اپنى صلاحيتوں كا وه حصه جو اسے دين كے  ليے خرچ كرنا چاهيے تھا اس حصے كو غصب كركے وه اپنے ذاتى استعمال ميں لے آيا هے۔ تو دين كے حقوق كو غصب كركے كمائى هوئى ايسى روزى حلال كيسے هوسكتى هے؟ دراصل حلال و حرام كے معاملے كو بهت دقت نظرى سے جانچنے اور پركھنے كى ضرورت هے۔ بد قسمتى سے همارے هاں اس معاملے كو عام طور پر بهت سطحى انداز ميں ديكھا اور پركھا جاتا هے۔ مثلًا ايك عام مسلمان سور كا گوشت كھانے كا تصور بھى نهيں كرسكتا ليكن وه اس بكرى كا گوشت بهت مزے اور رغبت سے كھا ليتا هے جو اس نے كسى كى جيب پر ڈاكه ڈال كر خريدى هوتى هے۔ اب ايسى بكرى كے بارے ميں كون كهے گا كه وه حلال هے اور حرام نهيں هے!

        اس موضوع كا ايك پهلو يه بھى هے كه اگر كوئى مسلمان باطل كے غلبے كے تحت اطمينان و سكون سے زندگى بسر كررها هے اور اس نظام كو تبديل كرنے كے ليے كوئى جدوجهد نهيں كررها تو وه بزعم خويش بے شك ناپ تول كر حلال هى كيوں نه كھا رها هو، اس كا كھانا پينا حتى كه اس ماحول ميں سانس لينا سب حرام هے۔ ايسے شخص كو خود سوچنا چاهيے كه وه كس نظام كى چاكرى كررها هے؟ كس كے اقتدار كو كندھا دے رها هے؟ تنخواه كهاں سے لے رها هے؟ اور اپنا كاروبار كس كى مدد سے آگے بڑھا رها هے؟ ظاهر هے وه يه سب كچھ باطل نظام كے ليے كررها هے اور طاغوت كى فراهم كرده چھترى كے سائے ميں كررها هے۔ چناں چه كسى مسلمان كا كسى باطل نظام كے تحت هنسى خوشى زندگى گزارنا كسى طور پر جائز نهيں۔ اِلّا يه كه ايسى صورت حال ميں وه كراهت اور بے چينى ميں زندگى بسر كرے، اپنى ضروريات كو كم سے كم سطح پر ركھے اور باطل نظام كو بدلنے كے ليے اپنا تن من دھن كھپا دينے پر همه وقت كمر بسته رهے۔ اس طرح اميد كى جاسكتى هے كه اس كى يه سوچ اور جدوجهد باطل نظام كے تحت زندگى بسر كرنے كے گناه كا كفاره بن جائے گى۔

          آيات زير مطالعه ميں دو انسانى كرداروں كا نقشه دكھايا گيا هے۔ ان ميں ايك كردار تو الله كے اس بندے كا هے جو دنيوى زندگى كے دوران آخرت كى جواب طلبى كے احساس سے هر وقت لرزاں وترساں رهتا تھا۔ ايسے لوگوں كے اعصاب پر آخرت كے احتساب كا خوف اس حد تك مسلط هوتا هے كه وه اپنى اسى كيفيت كو جنت ميں پهنچ كر بھى ياد كريں گے: (قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ) (الطور) «وه كهيں گے كه هم پهلے (دنيا ميں) اپنے اهل وعيال ميں ڈرتے هوئے رهتے تھے»۔ ايسے هى ايك شخص كے بارے ميں يهاں بتايا گيا هے كه وه الله كى عدالت سے اپنى كاميابى كى نويد سننے كے بعد اپنے گھر والوں كى طرف شاداں وفرحاں لوٹے گا۔ اس كے مقابلے ميں ايك كردار وه هے جو آخرت اور آخرت كے محاسبے سے بے خبر اپنے اهل و عيال كے ساتھ عيش وعشرت ميں مست رها۔ ايسے شخص نے دنيا ميں بلا شبه ايك خوشحال اور خوشيوں بھرى زندگى گزارى، ليكن آخرت ميں اس كے ليے جهنم كى آگ كے سوا كچھ نهيں هوگا۔

UP
X
<>