May 2, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 60

وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ

اور (مسلمانو!) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ، ان سے مقابلے کیلئے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اﷲ کے دُشمن اور اپنے (موجودہ) دُشمن پر بھی ہیبت طاری کر سکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں ابھی تم نہیں جانتے، (مگر) اﷲ انہیں جانتا ہے۔ اور اﷲ کے راستے میں تم جو کچھ خرچ کروگے، وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا، اور تمہارے لئے کوئی کمی نہیں کی جائے گی

  آیت 60:  وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ: ’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے‘‘

            یہاں مسلمانوں کو واضح طور پر حکم دیا جا رہا ہے کہ اب جبکہ تمہاری تحریک تصادم کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے تو تم لوگ اپنے وسائل کے مطابق‘ مقدور بھر فن حرب کی صلاحیت و اہلیت‘ اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ جہاد کے لیے تیار رکھو۔ اگرچہ ایک مؤمن کو اللہ کی نصرت پر توکل کرنا چاہیے‘ مگر توکل کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور امید رکھے کہ سب کچھ اللہ کی مدد سے ہی ہو جائے گا۔ بلکہ توکل یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے تمام ممکنہ مادی اور تکنیکی وسائل مہیا رکھے جائیں اور پھر اللہ کی نصرت پر توکل کیا جائے۔

            یہاں مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف بھر پور دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تیاری کا یہ حکم ہر دورکے لیے ہے۔ آج اگرا للہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے نوازا ہے تو یہ صلاحیت ملک و قوم کی قوت و طاقت کی علامت بھی ہے اور تمام عالم اسلام کی طرف سے پاکستان کے پاس ایک امانت بھی۔ اگر اس سلسلے میں کسی دباؤ کے تحت‘ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ (compromise) کیا گیا تو یہ اللہ، اس کے دین اور تمام عالم اسلام سے ایک طرح کی خیانت ہو گی۔ لہٰذا آج وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اس سلسلے میں جرأت مندانہ پالیسی اپنائے‘تا کہ اس کے دشمنوں کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں قوتِ مزاحمت کا توازن (deterrence) قائم رہے۔

             تُرْہِبُوْنَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ : ’’(تا کہ) تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو‘‘

             وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لاَ تَعْلَمُوْنَہُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ: ’’اور کچھ دوسروں کو (بھی) جو ان کے علاوہ ہیں، تم انہیں نہیں جانتے‘ اللہ انہیں جانتا ہے۔‘‘

            یعنی تمہاری آستینوں کے سانپ منافقین جو درپردہ تمہاری تباہی اور بربادی کے درپے رہتے ہیں۔ تمہاری نظروں سے تو وہ چھپے ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے۔

             وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ: ’’اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا ثواب پورا پورا تمہیں دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔‘‘

            یعنی اگر اسلحہ خریدنا ہے‘ سازو سامان فراہم کرنا ہے‘ گھوڑے تیار کرنے ہیں تو اس سب کچھ کے لیے اخراجات تو ہوں گے۔ لہٰذا جنگی تیاری کے ساتھ ہی انفاق فی سبیل اللہ کا حکم بھی آ گیا‘ اس ضمانت کے ساتھ کہ جو کوئی جتنا بھی اس سلسلے میں اللہ کے رستے میں خرچ کرے گا اس کو وعدے کے مطابق پورا پورا اجر دیا جائے گا اور کسی کی ذرّہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں سورۃ البقرۃ کے رکوع 36 اور 37 میں دیے گئے اَحکام کو ذہن میں دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! اب تمہاری تحریک کا وہ مرحلہ شروع ہو چکا ہے جہاں تمہارا جنگ کے لیے ممکن حد تک تیاری کرنا اور کیل کانٹے سے لیس ہونا نا گزیر ہو گیا ہے۔ لہٰذا اب آگے بڑھو اور اس عظیم مقصد کے لیے دل کھول کر خرچ کرو۔ اللہ تمہیں ایک کے بدلے سات سو تک دینے کا وعدہ کر چکا ہے‘ بلکہ یہ بھی آخری حد نہیں ہے۔ جذبہ ٔایثارو خلوص جس قدر زیادہ ہو گا یہ اجر و ثواب اسی قدر بڑھتا چلا جائے گا۔ لہٰذا اپنا مال سینت سینت کر رکھنے کے بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالو‘ تا کہ دنیا میں اللہ کے دین کے غلبے کے لیے کام آ جائے اور آخرت میں تمہاری فلاح کا ضامن بن جائے۔ 

UP
X
<>