April 23, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 6

يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ 

وہ تم سے حق کے معاملے میں اس کے واضح ہوجانے کے باوجود اس طرح بحث کررہے تھے جیسے اُن کو موت کی طرف ہنکا کر لے جایا جا رہا ہو، اور وہ (اُسے) آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں

آیت 6:  یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ:  ’’وہ لوگ آپ سے جھگڑ رہے تھے حق کے بارے میں‘ اس کے بعد کہ بات (ان پر) بالکل واضح ہو چکی تھی‘‘

            یہ آیت میرے نزدیک دوسری مشاورت کے بارے میں ہے جو مقامِ صفراء پر منعقد ہوئی تھی۔ نبی اکرم مدینہ سے قریش کے تجارتی قافلے کا پیچھا کرنے کے ارادے سے نکلے تھے‘ اور یہ بظاہر اسی طرح کی ایک مہم تھی جس طرح کی آٹھ مہمات اس علاقے میں پہلے بھی بھیجی جا چکی تھیں۔ اُس وقت تک لشکر قریش کے بارے میں نہ کوئی اطلاع تھی اور نہ ہی ایسا کوئی گمان تھا۔ لیکن جب آپ مدینہ سے نکل کر صفراء کے مقام پر پہنچے تو آپ کو اپنے ذرائع سے بھی لشکر قریش کی مکہ سے روانگی کی اطلاع مل گئی اور اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے بھی آپ کو اس بارے میں مطلع فرما دیا۔ چنانچہ جس طرح حضرت طالوت نے راستے میں اپنے لشکر کی آزمائش کی تھی کہ دریا کو عبور کرتے ہوئے جو شخص سیر ہو کر پانی پیے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا اور اس طرح مخلص ساتھیوں کا خلوص ظاہر ہو گیا‘ اسی طرح آپ نے بھی اللہ کے حکم سے سارا معاملہ مسلمانوں کے سامنے مشاورت کے لیے رکھ دیا اور ان کو واضح طور پر بتا دیا کہ مکہ سے ابوجہل ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل لشکر جرار لے کر روانہ ہو چکا ہے۔

             کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَہُمْ یَنْظُرُوْنَ:  ’’(وہ لوگ ایسے محسوس کر رہے تھے) جیسے انہیں موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہو اور وہ اسے دیکھ رہے ہوں۔‘‘

            ظاہر بات ہے یہ کیفیت تو پکے منافقین ہی کی ہو سکتی تھی۔ 

UP
X
<>