April 20, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 1

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنفَالِ قُلِ الأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللَّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ 

 (اے پیغمبر !) لوگ تم سے مالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو کہ مالِ غنیمت (کے بارے میں فیصلے) کا اختیار اﷲ اور رسول کو حاصل ہے۔ لہٰذا تم اﷲ سے ڈرو، اور آپس کے تعلقات درست کر لو، اور اﷲ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم واقعی مومن ہو

 آیت 1:  یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ: ’’(اے نبی!) یہ لوگ آپ سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھ رہے ہیں‘ آپ کہیے کہ اموالِ غنیمت کل کے کل اللہ اور رسول کے ہیں ۔‘‘

             فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ:  ’’پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘ اور اپنے آپس کے معاملات درست کرو‘ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مؤمن ہو۔‘‘

            یہاں مالِ غنیمت کے لیے لفظ ’’انفال‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ انفال جمع ہے نفل کی اور نفل کے معنی ہیں اضافی شے۔ مثلاً نمازِ نفل‘ جسے ادا کر لیں تو باعث ثواب ہے اور اگر ادا نہ کریں تو مواخذہ نہیں۔ اسی طرح جنگ میں اصل مطلوب شے تو فتح ہے جب کہ مالِ غنیمت ایک اضافی انعام ہے۔

            جیسا کہ تمہیدی گفتگو میں بتایا جا چکا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد مسلمانوں میں مالِ غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ سنجیدہ صورت اختیار کر گیا تھا۔ یہاں ایک مختصر قطعی اور دو ٹوک حکم کے ذریعے سے اس مسئلہ کی جڑ کاٹ دی گئی ہے اور بہت واضح انداز میں بتا دیا گیا ہے کہ انفال کل کے کل اللہ اور اس کے رسول کی ملکیت ہیں۔ اس لیے کہ یہ فتح تمہیں اللہ کی خصوصی مدد اور اللہ کے رسول کے ذریعے سے نصیب ہوئی ہے۔ لہٰذاانفال کے حق دار بھی اللہ اور اس کے رسول ہی ہیں۔ اس قانون کے تحت یہ تمام غنیمتیں اسلامی ریاست کی ملکیت قرار پائیں اور تمام مجاہدین کو حکم دے دیا گیا کہ انفرادی طور جو چیز جس کسی کے پاس ہے وہ اسے لا کر بیت المال میں جمع کرا دے۔ اس طریقے سے سب لوگوں کو zero level پر لا کر کھڑا کر دیا گیا اور یوں یہ مسئلہ احسن طور پر حل ہو گیا۔ اس کے بعد جس کو جو دیا گیا اس نے وہ بخوشی قبول کر لیا۔

            اگلی آیات اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں بندۂ مومن کی شخصیت کے کچھ خدوخال بیان ہوئے ہیں۔ مگر ان خدوخال کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ نکتہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ’’مؤمن‘‘ اور ’’مسلمان‘‘ دو مترادف الفاظ یا اصطلاحات نہیں ہیں۔ قرآن ان دونوں میں واضح فرق کرتا ہے۔ یہ فرق سورۃ الحجرات کی آیت: 14 میں اس طرح بیان ہوا ہے: قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ.  ’’(اے نبی!) یہ بدو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں‘ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں جبکہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے‘‘۔ اسلام اور ایمان کا یہ فرق اچھی طرح سمجھنے کے لیے ’’ارکانِ اسلام‘‘ کی تفصیل ذہن میں تازہ کر لیجئے جو قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا کا مرحلہ ٔاولیٰ طے کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

«بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَھَادَۃِ اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُـہ وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکَاۃِ وَحَجِّ الْبَیْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ»  

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں‘ نماز قائم کرنا‘ زکوٰۃ ادا کرنا‘ بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

یہ پانچ ارکانِ اسلام ہیں‘ جن سے ہر مسلمان واقف ہے۔ مگر جب ایمان کی بات ہو گی تو ان پانچ ارکان کے ساتھ دو مزید ارکان اضافی طور پر شامل ہو جائیں گے ‘اور وہ ہیں دل کا یقین اور عمل میں جہاد۔ چنانچہ ملاحظہ ہو سورۃ الحجرات کی اگلی آیت میں بندۂ مؤمن کی شخصیت کا یہ نقشہ: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ. ’’ مؤمن تو بس وہ ہیں جو ایمان لائیں اللہ پر اور اُس کے رسول پر‘ پھر ان کے دلوں میں شک باقی نہ رہے اور وہ جہاد کریں اپنے مالوں اور جانو ں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ صرف وہی لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں‘‘ ۔ یعنی کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد انسان قانونی طور پر مسلمان ہو گیا اور تمام ارکانِ اسلام اس کے لیے لازمی قرار پائے۔ مگر حقیقی مؤمن وہ تب بنے گا جب اُس کے دل کو گہرے یقین «ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا»  والا ایمان نصیب ہو گا اورعملی طور پر وہ جہاد میں بھی حصہ لے گا۔

            بندۂ مؤمن کی اسی تعریف (definition) کی روشنی میں اہل ایمان کی کیفیت یہاں سورۃ الانفال میں دو حصوں میں الگ الگ بیان ہوئی ہے۔ وہ اس طرح کہ حقیقی ایمان والے حصے کی کیفیت کو آیت 2 اور 3 میں بیان کیا گیا ہے‘ جبکہ اس کے دوسرے (جہاد والے) حصے کی کیفیات کو سورت کی آخری آیت سے پہلے والی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک پرکار (compass) کو کھول دیا گیا ہو‘ جس کی ایک نوک سورت کے آغاز پر ہے (پہلی آیت چھوڑ کر) جبکہ دوسری نوک سورت کے آخر پر ہے (آخری آیت چھوڑ کر)۔ اس وضاحت کے بعد اب ملاحظہ ہو بندۂ مؤمن کی تعریف (definition) کا پہلا حصہ:

UP
X
<>