May 5, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 20

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ 

پھر یہ ہوا کہ شیطان نے اُن دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا، تاکہ اُن کی شرم کی جگہیں جو اُن سے چھپائی گئی تھیں ، ایک دوسرے کے سامنے کھول دے۔ کہنے لگا کہ : ’’ تمہارے پروردگار نے تمہیں اس درخت سے کسی اوروجہ سے نہیں ، بلکہ صرف اس وجہ سے روکا تھا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشہ کی زندگی نہ حاصل ہوجائے۔ ‘‘

آیت 20:   فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وُرِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا:  ’’تو شیطان نے ان دونوں کو وسوسہ میں ڈالا تا کہ ظاہر کر دے ان پر جو ان سے پوشیدہ تھیں ان کی شرمگاہیں‘‘

            قصہ ٔآدم و ابلیس کی تفصیل ہم سورۃ البقرۃ کے چوتھے رکوع میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ یہاں یہ قصہ دوسری مرتبہ بیان ہوا ہے۔ پورے قرآن مجید میں یہ واقعہ سات مرتبہ آیا ہے‘ چھ مرتبہ مکی سورتوں میں اور ایک مرتبہ مدنی سورت (البقرۃ) میں۔ لیکن ہر جگہ مختلف انداز سے بیان ہوا ہے اور ہر بار کسی نہ کسی نئی بات کا اس میں اضافہ ہوا ہے۔ حضور کی دعوتی تحریک جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی، ہر دور کے مخصوص حالات کے سبب اس واقعے میں ہر دفعہ مزید تفصیلات شامل ہوتی گئیں۔ اس رکوع کے شروع میں جب اس قصے کا ذکر آیا ہے تو وہاں جمع کا صیغہ استعمال کر کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنٰـکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰـکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ  فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ.  

            سورۃ البقرۃ کی متعلقہ آیات کی وضاحت کرتے ہوئے اس ضمن میں بعض اہم نکات زیر بحث آ چکے ہیں۔ یہاں پر مزید کچھ باتیں تشریح طلب ہیں۔ ایک تو شیطان کے حضرت آدم اور حضرت حوا کو ورغلانے اور ان کے دلوں میں وسوسے ڈالنے کا سوال ہے کہ اس کی کیفیت کیا تھی۔ اس سلسلے میں جو باتیں یا مکالمات قرآن میں آئے ہیں ان سے یہ گمان ہر گز نہ کیا جائے کہ وہ اسی طرح ان کے درمیان وقوع پذیر بھی ہوئے تھے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے اور پہچانتے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ ایسا ہر گز نہیں تھا‘ بلکہ شیطان جیسے آج ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے اسی طرح حضرت آدم اور حضرت حوا کی نظروں سے بھی پوشیدہ تھا اور جس طرح آج ہمارے دلوں میں شیطانی وسوسے جنم لیتے ہیں اسی طرح ان کے دلوں میں بھی وسوسے پیدا ہوئے تھے۔ دوسرا اہم نکتہ ایک خاص ممنوعہ پھل کے چکھنے اور اس کی ایک خاص تاثیر کے بارے میں ہے۔ قرآن مجید میں ہمیں اس کی تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ اس پھل کے چکھنے پر ان کی شرمگاہیں نمایاں ہو گئیں۔ جہاں تک اس کیفیت کی حقیقت کا تعلق ہے تو اسے معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس حتمی اور قطعی علمی ذرائع نہیں ہیں، اس لیے اسے متشابہات میں ہی شمار کیا جائے گا۔ البتہ اس کے بارے میں مفسرین نے قیاس آرائیاں کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ پہلے انہیں اپنے اِن اعضاء کے بارے میں شعور نہیں تھا، مگر وہ پھل چکھنے کے بعد یہ شعور ان میں بیدار ہو گیا‘ یا یہ کہ پہلے انہیں جنت کا لباس دیا گیا تھا جو اس واقعے کے بعد اتر گیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ نیکی اور بدی کا درخت تھا جس کا پھل کھاتے ہی ان میں نیکی اور بدی کی تمیز پیدا ہو گئی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ دراصل آدم اورحوا کے درمیان پہلاجنسی اختلاط (sexual act) تھا‘ جسے اس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مختلف آراء ہیں، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہے اور ٹھوس علمی معلومات کے بغیر اس کے بارے میں کوئی قطعی اور حقیقی رائے قائم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ درخت کون سا تھا اور اسے چکھنے کی اصل حقیقت اور کیفیت کیا تھی۔

            وَقَالَ مَا نَہٰٹکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلآَّ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ:  ’’اور اُس نے کہا (وسوسہ اندازی کی) کہ نہیں روکا ہے آپ دونوں کو آپ کے رب نے اس درخت سے مگر اسی لیے کہ کہیں آپ فرشتے نہ بن جائیں یا کہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے نہ ہو جائیں۔‘‘

            یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ فرشتوں کو تو آدم کے سامنے جھکایا گیا تھا تو اس کے بعد آپ کے لیے فرشتہ بن جانا کون سی بڑی بات تھی، لیکن بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان کو نسیان ہو جاتا ہے اور وہ اپنی اصل حقیقت‘ اصل مقام کو بھول جاتا ہے۔ چنانچہ یہ بات گویا شیطان نے وسوسے کے انداز سے ان کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی کہ اس شجر ممنوعہ کا پھل کھا کر تم فرشتے بن جاؤ گے یا ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہو گے اور تم پر موت طاری نہ ہوگی۔ 

UP
X
<>