April 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 2

كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلاَ يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ 

 (اے پیغمبر !) یہ کتاب ہے جو تم پر اس لئے اتاری گئی ہے کہ تم اُس کے ذریعے لوگوں کو ہوشیار کرو، لہٰذا اس کی وجہ سے تمہارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہونی چاہیئے، اور مومنوں کیلئے یہ ایک نصیحت کا پیغام ہے

آیت 2:   کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ:   ’’یہ کتاب ہے (اے نبی) جو آپ پر نازل کی گئی ہے‘ تو نہیں  ہونی چاہیے آپ کے دل میں  کچھ تنگی اس کی وجہ سے‘‘

            رسول اللہ دعوت کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کر رہے تھے،  مگر آپ کی سالہا سال کی جدوجہد کے باوجود مکہ کے صرف چند لوگ ایمان لائے۔ یہ صورتِ حال آپ کے لیے باعث ِ تشویش تھی۔ ایک عام آدمی تو اپنی غلطیوں کی ذمہ داری بھی دوسروں  کے سر پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں  کو بھی دوسروں  کے کھاتے میں  ڈال کر خود کو صاف بچانے کی فکر میں  رہتا ہے‘ لیکن ایک شریف النفس انسان ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر اس کی کوشش کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں  آ رہے ہیں  تو اس میں  اُس کی طرف سے کہیں  کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ اس سوچ اور احساس کی وجہ سے وہ اپنے دل پر ہر وقت ایک بوجھ محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا جب حضور کی مسلسل کوشش کے باوجود اہل ِمکہ ایمان نہیں  لا رہے تھے تو بشری تقاضے کے تحت آپ کو دل میں  بہت پریشانی محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے آپ کی تسلی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس قرآن کی وجہ سے آپ کے اوپر کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔

            لِتُنْذِرَ بِہ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ:   ’’(یہ تو ا س لیے ہے) تاکہ اس کے ذریعے سے آپ خبردار کریں  اور یہ یاد دہانی ہے اہل ِایمان کے لیے۔‘‘

            ’’ لِتُنْذِرَ بِہ‘‘ وہی لفظ ہے جو ہم سورۃ الانعام کی آیت: 19 میں  بھی پڑھ آئے ہیں۔ وہاں  فرمایا گیا تھا:  وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہ وَمَنْ بَلَغَ.  ’’اور یہ قرآن میری طرف اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تمہیں  بھی خبردار کروں  اور جس جس کو یہ پہنچے‘‘۔ یہاں  مزید فرمایا کہ یہ اہل ایمان کے لیے ذِکْرٰی (یاد دہانی) ہے۔ یعنی جن سلیم الفطرت لوگوں  کے اندر بالقوۃ (potentially) ایمان موجود ہے اُن کے اِس سوئے ہوئے (dormant) ایمان کو بیدار (activate) کرنے کے لیے یہ کتاب ایک طرح سے یاددہانی ہے۔ جیسے آپ کو کوئی چیز بھول گئی تھی‘ اچانک کہیں  اس کی کوئی نشانی دیکھی تو فوراً وہ شے یاد آ گئی‘ اسی طرح  اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کے حصول کے لیے اس کائنات کی نشانیوں  کو یاد دہانی (ذکریٰ) بنا دیا ہے۔ 

UP
X
<>