April 25, 2024

قرآن کریم > الـجـمـعـة >sorah 62 ayat 2

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 

وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں اُنہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو اُن کے سامنے اُس کی آیتوں کی تلاوت کریں ، اور اُن کو پاکیزہ بنائیں ، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں ، جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے

آيت 2:  هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ:  «وهى تو هے جس نے اٹھايا اُميين ميں ايك رسول ان هى ميں سے، جو ان كو پڑھ كر سناتا هے اُس كى آيات اور ان كا تزكيه كرتا هے اور انهيں تعليم ديتا هے كتاب وحكمت كى».

وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ:  «اور يقينًا اس سے پهلے تو وه كھلى گمراهى ميں تھے».

اس سورت كى يه آيت انقلابِ نبوى كے اساسى منهاج كے حوالے سے اسى طرح اهم هے جس طرح سورة الصف كى آيت: 9 تكميلى منهاج كے اعتبار سے اهم هے. سورة الصف كى مذكوره آيت ميں حضور صلى الله عليه وسلم كا مقصدِ بعثت بيان هوا هے تو آيت زير مطالعه ميں آپ صلى الله عليه وسلم كے فرائضِ منصبى كا ذكر هے. سورة الصف كى وه آيت اپنى اهميت كى وجه سے قرآن مجيد ميں تين مرتبه (سورة الصف كے علاوه سورة التوبه، آيت: 33 اور سورة الفتح، آيت: 28 كے طور پر) آئى هے، تو اس آيت ميں مذكور «انقلابِ نبوى كا اساسى منهاج» قرآن حكيم ميں چار مرتبه (سورة الجمعه كى اس آيت كے علاوه سورة البقرة كى آيات: 129، 151 اور سوره آل عمران كى آيت: 164 ميں) بيان كيا گيا هے. اس آيتِ مباركه ميں نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے اساسى منهاج كے عناصرِ اربعه بيان كيے گئے هيں: (1) تلاوتِ آيات. (2) تزكيه. (3) تعليمِ كتاب. (4) تعليمِ حكمت.

اس آيت كى بنيادى اهميت يه هے كه اس ميں مطلوبه انقلاب كى تيارى اور اس كے ليے مردانِ كار كى فراهمى كا مكمل طريقه اور نصاب بيان كر ديا گيا هے كه ان كى تعليم، تربيت، تذكير، ان كا تزكيه، ان كا انذار سب كچھ قرآن كريم كے ذريعے سے هو گا. حضور صلى الله عليه وسلم نے لوگوں كو قرآن سنانا شروع كيا تو سليم الفطرت لوگ قرآن كى مقناطيسى تاثير كى وجه سے اپنى اپنى استعداد كے مطابق اس كى طرف كھنچے چلے آئے. كسى نے فورًا هى لبيك كهه ديا، كوئى قدرے تأمل كے بعد راغب هوا اور كسى نے نسبتًا زياده دير بعد فيصله كيا. چنانچه جس طرح دودھ كو بلو كر مكھن نكالا جاتا هے بالكل اسى طرح مكه كى آبادى كو باره سال كے عرصے ميں آياتِ قرآن كى تلاوت كے ذريعے سے بار بار جھنجھوڑ كر تمام سليم الفطرت (زنده ارواح كے حامل) افراد كو چھانٹ كر الگ الگ كر ليا گيا. پھر ان منتخب افراد كا تزكيه بھى قرآن مجيد كى تلاوت سے هى هوا هے. قرآن مجيد بلاشبه ﴿وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ﴾ {يونس: 57} هے. جيسے جيسے يه كلام ان لوگوں كے سينوں ميں اترتا گيا دلوں كى بيمارياں دور هوتى چلى گئيں. يهاں پر يه اهم نكته بھى سمجھ ليجيے كه دل كى بيمارياں تو بے شمار هيں ليكن ان تمام بيماريوں كو اگر كوئى ايك نام يا كوئى ايك عنوان ديا جائے تو وه «حب دُنيا» هے. حبّ دنيا كى گندگى جب كسى دل كے اندر ڈيره جما ليتى هے تو اس كے تعفن سے نت نئى بيمارياں جنم ليتى جاتى هيں، جبكه خود حبّ دنيا كے جراثيم كو غذا انسان كى سوچ اور اس كے نظريے سے ملتى هے. ظاهر هے انسان كى زندگى كا انداز اور اس كى دوڑ دھوپ كا رخ اس كا نظريه متعين كرتا هے. چنانچه قرآن مجيد كى تعليم كے ذريعے ان لوگوں كے نظريات درست هو گئے تو حبّ دنيا سميت تمام باطنى بيماريوں كى گويا جڑ كٹ گئى اور برے اعمال وخصائل ان كى شخصيات سے ايسے غائب هو گئے جيسے موسمِ خزاں ميں درختوں سے پتّے جھڑ جاتے هيں.

يهاں ضمنى طور پر يه نكته بھى سمجھ ليجيے كه اس آيت ميں حضور صلى الله عليه وسلم كے جن فرائضِ منصبى كا ذكر هوا هے ان ميں «تعليمِ حكمت» كا تعلق عام لوگوں سے نهيں هے، بلكه يه حضور صلى الله عليه وسلم كى تعليم وتربيت كا شعبه تخصّص (area of specialization) هے. هر كوئى اس ميدان كا شهسوار نهيں بن سكتا. ارشادِ خداوندى هے: ﴿يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ {البقرة: 269}.  «وه جس كو چاهتا هے حكمت عطا كرتا هے. اور جسے حكمت دے دى گئى اسے تو خير كثير عطا هو گيا».       بهرحال يه آيت هم پر يه حقيقت واضح كرتى هے كه حضور صلى الله عليه وسلم كے منهجِ انقلاب ميں آله دعوت اور آله انقلاب قرآن مجيد هے. آپ نے لوگوں كو دعوت بھى قرآن كے ذريعے دى، ان كى تذكير وتبشير كے ليے بھى قرآن پر هى انحصار كيا. پھر اس دعوت پر لبيك كهنے والوں كا تزكيه بھى قرآن هى سے هوا اور ان كى تعليم وتربيت كا ذريعه بھى قرآن هى بنا. آپ صلى الله عليه وسلم نے قرآن كى بنياد پر 23 سال كے مختصر عرصے ميں انسانى تاريخ كا عظيم ترين انقلاب برپا كر كے جزيره نمائے عرب ميں الله تعالى كے عطا كرده نظامِ عدل وقسط كو بالفعل نافذ كر ديا. اس كے بعد پورى دنيا ميں دين كو غالب كرنے كا مشن اُمت كے سپرد كر كے آپ صلى الله عليه وسلم اس دنيا سے تشريف لے گئے. يه مشن منتقل كرتے هوئے بھى حضور صلى الله عليه وسلم نے اُمت كو جو وصيّت كى تھى وه بھى قرآن كے بارے ميں تھى. آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: «قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ، كِتَابَ اللَّهِ».  «ميں تمهارے درميان وه شے چھوڑے جا رها هوں كه جسے تم مضبوطى سے تھام لو گے تو هر گز گمراه نهيں هو گے. وه هے الله كى كتاب!».

چنانچه آج همارے ليے بلكه تا قيامِ قيامت هر زمانے كے مسلمانوں كے ليے قرآن مجيد گويا محمد رّسول الله صلى الله عليه وسلم كے قائم مقام هے. اس حيثيت ميں يه حضرت موسى عليه السلام كے عصا سے كئى گنا بڑا معجزه هے. عصائے موسى تو صرف حضرت موسى عليه السلام كے هاتھ ميں معجزه تھا، آپ عليه السلام كے بعد تو وه معجزه نهيں رها. اگر آج بھى وه كهيں موجود هے، جيسا كه يهوديوں كا دعوى هے كه ان كے پاس محفوظ هے، تو اس كى حيثيت بس ايك لاٹھى كى سى هے. اس كے برعكس حضور صلى الله عليه وسلم كا معجزه رسالت يعنى قرآن مجيد قيامت تك كے ليے معجزه هے اور هر اس شخص كے ليے معجزه هے جو اس كا حق پهچانے اور ادا كرے. اس حوالے سے ميرا ايمان تو حق اليقين كى حد تك هے كه اگر كوئى شخص خلوص واخلاص كے ساتھ قرآن مجيد ميں ايسى محنت كرے كه قرآن اس كو possess كر لے تو پھر اسے دنيا كى هر چيز بے وقعت نظر آئے گى، اور قرآن كے علاوه كسى اور چيز ميں اس كا دل نهيں لگے گا. ليكن مقامِ افسوس هے كه هم نے الله تعالى كى اتنى بڑى نعمت كو بالكل هى پس پشت ڈال ديا هے. هم دنيا بھر كے علوم سيكھتے هيں مگر اس قدر عربى نهيں سيكھ سكتے جس سے قرآن مجيد كو سمجھ كر پڑھا جا سكے.اس ليے كه يه نه تو همارى ترجيح هے اور نه هى اس كے ليے همارے پاس وقت هے. الله تعالى كے كلام كو نظرانداز كرنے كا همارا يه انداز حيرت انگيز حد تك جسارت آميز هے. اس حوالے سے ذرا قرآن كى يه وعيد بھى سنيے: ﴿أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ  وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ﴾ {الواقعة: 81، 82} كه اے الله كے بندو! ذرا سوچو تو! كيا تم اس عظيم الشان كلام كے بارے ميں مداهنت كرتے هو؟ اور كيا اس كى تكذيب كو تم نے اپنا وطيره بنا ليا هے؟

قرآن مجيد تو ظاهر هے هر زمانے كے لوگوں كے ليے هے. يه آيات اپنے نزول كے وقت تو مشركينِ مكه سے مخاطب تھيں، جبكه آج ان كے مخاطب هم هيں. وه لوگ تو نظرياتى طور پر قرآن مجيد كو الله كا كلام نهيں مانتے تھے اور اپنى زبانوں سے اس كى تكذيب كرتے تھے، جبكه آج هم اپنى زبانوں سے اس كے كلام الله هونے كى تصديق كرنے كے بعد اپنے عمل سے اس كى تكذيب كر رهے هيں. مقامِ عبرت هے! قرآن مجيد كى طرف تو پلٹ كر ديكھنے كے ليے بھى همارے پاس وقت نهيں جبكه دنيا كے حقير مفادات كے ليے هم دن رات ايك كيے هوئے هيں. كيا هميں اسى ليے پيدا كيا گيا تھا؟ يهى سوال تھا جس نے ابراهيم بن ادهم رحمه الله كى زندگى بدل دى تھى. ابراهيم بن ادهم بادشاه كى حيثيت سے غفلت اور عيش وعشرت كى زندگى بسر كر رهے تھے، ايك دن شكار كرنے ميں مصروف تھے كه انهوں نے ايك آواز سنى: يَا اِبْرَاهِيْمُ! اَلِهَذَا خُلِقْتَ اَمْ لِهَذَا اُمِرْتَ؟ كه اے ابراهيم ذرا سوچو! كيا تمهيں اسى كام كے ليے پيدا كيا گيا تھا؟ اور كيا تمهيں اسى كام كا حكم هوا تھا؟ الله جانے يه فرشتے كى آواز تھى يا ان كے اپنے دل كى صدا. بهرحال جو بھى صورت حال تھى اس كا نتيجه يه نكلا كه وه بات ان كے دل ميں گھر كر گئى اور ان كى زندگى كى كايه پلٹ گئى.

UP
X
<>