May 5, 2024

قرآن کریم > الـمـمـتـحنة >sorah 60 ayat 4

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلاَّ قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لأَبِيهِ لأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ

تمہارے لئے ابراہیم اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : ’’ ہمارا تم سے اور اﷲ کے سوا تم جن جن کی عبادت کرتے ہو، اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں ، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے دُشمنی اور بغض پید اہوگیا ہے جب تک تم صرف ایک اﷲ پر اِیمان نہ لاؤ۔ البتہ اِبراہیم نے اپنے باپ سے یہ ضرور کہا تھا کہ : ’’ میں آپ کیلئے اﷲ سے مغفرت کی دُعا ضرور مانگوں گا، اگر چہ اﷲ کے سامنے میں آپ کو کوئی فائدہ پہنچانے کا کوئی اِختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار ! آپ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے، اور آپ ہی کی طرف ہم رُجوع ہوئے ہیں ، اور آپ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جاناہے

آيت 4:  قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ:  «تمهارے ليے بهت اچھا نمونه هے ابراهيم اور اس كے ساتھيوں (كے طرزِ عمل) ميں».

إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ:  «جب انهوں نے اپنى قوم سے برملا كهه ديا كه هم بالكل برى هيں تم سے اور ان سے جنهيں تم پوجتے هو الله كے سوا».

هم تم سے بھى اور ان سے بھى اعلانِ براءت اور اظهارِ لا تعلقى كرتے هيں.

كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا:  «هم تم سے منكر هوئے، اور اب همارے اور تمهارے درميان عداوت اور بغض كا سلسله شروع هو گيا هے هميشه كے ليے»

حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ:  «يهاں تك كه تم بھى ايمان لے آؤ الله پر توحيد كے ساتھ»

گويا حضرت ابراهيم عليه السلام اور آپ كے اهلِ ايمان ساتھى (رضى الله عنهم) اپنے كافر اعزه واقارب كے ليے ننگى تلوار بن گئے. يهاں يه اهم نكته نوٹ كر ليجيے كه حزب الله والوں كو الله تعالى كے راستے ميں جد وجهد كرتے هوئے اپنے رحمى رشتوں كو كاٹ پھينكنے  كا مشكل مرحله بھى لازمًا طے كرنا پڑتا هے. جيسا كه سورة المجادله كى اس آيت ميں واضح كيا گيا هے:  ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ﴾ {آيت: 22}.  «تم نهيں پاؤ گے ان لوگوں كو جو حقيقتًا ايمان ركھتے هيں الله پر اور يومِ آخرت پر كه وه محبت كرتے هوں ان سے جو مخالفت پر كمر بسته هيں الله كى اور اس كے رسول (صلى الله عليه وسلم) كى، خواه وه ان كے باپ هوں يا ان كے بيٹے هوں يا ان كے بھائى هوں يا ان كے رشتے دار هوں». چنانچه اسى اصول كے مطابق حضرت ابراهيم عليه السلام اور آپ كے اهلِ ايمان ساتھيوں نے اپنى قوم، برادرى اور رشته داروں سے نه صرف اظهارِ لا تعلقى كيا بلكه انهيں كھلم كھلا عداوت اور مخالفت كا چيلنج بھى دے ديا.

إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ:  «سوائے ابراهيم كے اپنے باپ سے يه كهنے كے كه ميں آپ كے ليے ضرور استغفار كروں گا»

يه حضرت ابراهيم عليه السلام كى اپنے والد كے ساتھ اس گفتگو كا حواله هے جس كى تفصيل سوره مريم ميں آئى هے، اس موقع پر باپ بيٹے كے درميان جو آخرى مكالمه هوا وه يه تھا:  ﴿قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا  قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا﴾ {آيت: 46، 47}  «اُس نے كها: اے ابراهيم! كيا تم كناره كشى كر رهے هو ميرے معبودوں سے؟ اگر تم اس سے باز نه آئے تو ميں تمهيں سنگسار كر دوں گا، اور تم مجھے چھوڑ كر چلے جاؤ ايك مدت تك. ابراهيم (عليه السلام) نے كها: آپ پر سلام! ميں اپنے رب سے آپ كے ليے استغفار كرتا رهوں گا، وه مجھ پر بڑا مهربان هے». آيت زير مطالعه ميں حضرت ابراهيم عليه السلام كے اسى وعدے كا حواله آيا هے.

وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ:  «اور ميں آپ كے معاملے ميں الله كے هاں كچھ بھى اختيار نهيں ركھتا».

ميں آپ كے ليے دعا ضرور كروں گا، الله تعالى دعا قبول كرے نه كرے، وه آپ كو معاف كرے نه كرے، يه اس كا اختيار هے.

اس ضمن ميں يه نكته بھى پيشِ نظر رهنا چاهيے كه سوره مريم كى مذكوره آيات هجرت سے پهلے مكه ميں نازل هوئى تھيں اور زير مطالعه آيت، 8 هجرى ميں فتح مكه سے قبل نازل هوئى. ان آيات ميں حضرت ابراهيم عليه السلام كے جس وعدے كا ذكر هے اس سے متعلق آخرى حكم سورة التوبه كى اس آيت ميں آيا هے، جو 9 هجرى ميں ذيقعده كے بعد نازل هوئى: ﴿وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴾ {آيت: 114}.  «اور نهيں تھا استغفار كرنا ابراهيم كا اپنے والد كے حق ميں مگر ايك وعدے كى بنياد پر جو انهوں نے اس سے كيا تھا، اور جب آپ پر واضح هو گيا كه وه الله كا دشمن هے تو آپ نے اس سے اعلانِ بيزارى كرديا. يقينًا ابراهيم بهت دردِ دل ركھنے والے اور حليم الطبع انسان تھے». چنانچه سورة التوبه كى يه آيت جو 9 هجرى ميں ذيقعده كے بعد نازل هوئى محكم تصور هو گى اور پهلى آيت اس كے تابع سمجھى جائے گى.

رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ:  «پروردگار! هم نے تجھ پر هى توكل كيا اور تيرى هى طرف رجوع كيا اور هميں تيرى طرف هى لوٹ كر جانا هے».

UP
X
<>