May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 60

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ 

اور وہی ہے جو رات کے وقت (نیند میں) تمہاری روح (ایک حد تک) قبض کر لیتا ہے، اور دن بھر میں تم نے جو کچھ کیا ہوتا ہے، اسے خوب جانتا ہے، پھر اس (نئے دن) میں تمہیں نئی زندگی دیتا ہے، تاکہ (تمہاری عمر کی) مقررہ مدت پوری ہو جائے۔ پھر اسی کے پاس تم کو لوٹ کر جانا ہے۔ اُس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کیا کرتے تھے

آیت 60:   وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰٹکُمْ بِالَّـیْلِ:   ’’ اور وہی ہے جو تمہیں وفات دیتا ہے رات کے وقت،،

            سورۂ آلِ عمران کی آیت: 55 کی تشریح کے سلسلے میں  یُـوَفِّیْ  یَتَوَفّٰی اور مُتَوَفِّی وغیرہ الفاظ کی وضاحت ہو چکی ہے،  جس سے قادیانیوں  کی ساری خباثت کا توڑ ہو جاتا ہے۔ ذرا غور کیجئے! یہاں  وفات دینے کے کیا معنی ہیں؟  کیا نیند کے دوران انسان مر جاتا ہے؟ نہیں،  جان تو بدن میں  رہتی ہے ، البتہ شعور نہیں  رہتا۔ اس سلسلے میں  تین چیزیں  الگ الگ ہیں:  جسم،  جان اور شعور۔ فارسی کا ایک بڑا خوبصورت شعر ہے:

جاں  نہاں  در جسم،  اُو در جاں  نہاں!

اے نہاں  ،  اندر نہاں  ، اے جانِ جاں!

’’جان جسم کے اندر پنہاں  ہے اور جان میں  وہ پنہاں  ہے۔ اے کہ جو پنہاں  شے کے اندر پنہاں  ہے،  تو ہی تو جانِ جاں  ہے!،،

             اس شعر میں  ’’اُو،، (وہ)  سے مراد کچھ اور ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔  اس وقت صرف یہ سمجھ لیجیے کہ ان تین چیزوں (یعنی جسم،  جان اور شعور) میں  سے نیند میں  صرف شعور جاتا ہے جبکہ موت میں  شعور بھی جاتا ہے اور جان بھی چلی جاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ کا  ’’تَوَفِّی،،  مکمل صورت میں  وقوع پذیر ہوا تھا ، یعنی جسم،  جان اور شعور تینوں  چیزوں  کے ساتھ۔  عام آدمی کی موت کی صورت میں یہ ’’تَوَفِّی،،  ادھورا ہوتا ہے،  یعنی جسم یہیں  رہ جاتا ہے،  جان اور شعور چلے جاتے ہیں ،  جب کہ نیند کی حالت میں  صرف شعور جاتا ہے۔

            وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُـکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی:   ’’اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو دن کے وقت،  پھر وہ اس میں (اگلی صبح کو)  تمہیں  اُٹھاتا ہے،  تاکہ (تمہاری)  مدتِ معین پوری ہو جائے۔،،

            یعنی روزانہ ہم ایک طرح سے موت کی آغوش میں  چلے جاتے ہیں، کیونکہ نیند آدھی موت ہوتی ہے۔ جیسے صبح کے وقت اٹھنے کی مسنون دعا میں  مذکور ہے:  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَنِیْ وَاِلَـیْہِ النُّشُوْرِ. (کل شکر اور کل تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے دوبارہ زندہ کیا،  اس کے بعد کہ مجھ پر موت وارد کر دی تھی اور اُسی کی طرف جی اُٹھنا ہے)۔  اس دعا سے ایک بڑاعجیب نکتہ ذہن میں  آتا ہے۔ وہ یہ کہ ہر روز صبح اٹھتے ہی جس شخص کی زبان پر یہ الفاظ آتے ہوں:  ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَنِیْ وَاِلَـیْہِ النُّشُوْرِ،،  قیامت کے دن جب وہ قبر سے اٹھے گا تو دنیا میں  اپنی عادت کے سبب اُس کی زبان پر خود بخود یہی ترانہ جاری ہو جائے گا،  جو اُس وقت لفظی اعتبار سے صد فیصد درست ہو گا، کیونکہ وہ اٹھنا حقیقی موت کے بعد کا اٹھنا ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ زندگی میں  روزانہ اس کی ریہرسل کی جائے تا کہ یہ عادت پختہ ہو جائے۔

            ثُمَّ اِلَـیْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُـنَـبِّئُـکُمْ بِمَا کُنْـتُـمْ تَعْمَلُوْنَ:   ’’پھر اُسی کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے،  پھر وہ تمہیں  جتلا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔،، 

UP
X
<>