April 19, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 6

أَلَمْ يَرَوْاْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاء عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ 

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں ! ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو تمہیں نہیں دیا۔ ہم نے ان پر آسمان سے خوب بارشیں بھیجیں ، اور ہم نے دریاؤں کو مقرر کر دیا کہ وہ ان کے نیچے بہتے رہیں ۔ لیکن پھر ان کے گناہوں کی وجہ سے ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا، اور ان کے بعد دوسری نسلیں پیدا کیں

آیت 6:   اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّنْ لَّــکُمْ:   ’’کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر دیا جنہیں ہم نے زمین میں ایسا تمکن عطا فرمایا تھا جیسا تمہیں عطا نہیں کیا ہے‘‘

            اے قومِ قریش! ذرا قومِ عاد کی شان و شوکت کا تصور کرو! وہ لوگ اسی جزیرہ نمائے عرب میں آباد تھے۔ اُس قوم کی عظمت کے قصے ابھی تک تمہیں یاد ہیں۔ قومِ ثمود بھی بڑی طاقتور قوم تھی‘ اپنے علاقے میں ان کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا۔ وہ لو گ پہاڑوں کو تراش کر ایسے عالی شا ن محل بناتے تھے کہ تم لوگ آج اس اہلیت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہو۔ ہم نے ان قوموں کو زمین میں وہ قوت و سطوت دے رکھی تھی جو تم کو نہیں دی۔ تو جب ہم نے ایسی عظیم الشان اقوام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تو تمہاری کیا حیثیت ہے؟

            وَاَرْسَلْنَا السَّمَآءَ عَلَیْہِمْ مِّدْرَارًا وَّجَعَلْنَا الْاَنْہٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمْ:   ’’اور ہم نے ان پر  آسمان (سے مینہ)  برسایا موسلا دھار اور ہم نے نہریں بہا دیںان کے نیچے‘‘

             ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور انہیں خوشحالی عطا کی۔ بارش کا پانی برکت والا (مَآءً مُبَارَکًا)  ہوتا ہے جس سے زمین کی روئیدگی خوب بڑھتی ہے‘  فصلوں اور اناج کی بہتات ہوتی ہے۔

            فَاَہْلَکْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْ بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ:   ’’پھر ان کو بھی ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر دیا اور ہم نے ان کے بعد ایک اور قوم کو اُٹھا کھڑا کیا۔‘‘

            مطلب یہ ہے کہ اس قانون کے مطابق تم کس کھیت کی مولی ہو؟  کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا قانون بدل جائے گا؟

            اگلی آیت میں اس سورہ مبارکہ کا مرکزی مضمون مذکور ہے۔ جس دور میں یہ سورتیں نازل ہوئی تھیں اُس دور میں حضور پر قریش مکہ کا بے انتہا دباؤ تھا کہ اگر آپ رسول ہیں اور ہم سے اپنی رسالت منوانا چاہتے ہیں تو کوئی حسی معجزہ ہمیں دکھایئے ‘ جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ مردہ کو زندہ کیجیے‘  آسمان پر چڑھ  کر دکھایئے‘  مکہ میں کوئی باغ بنا دیجیے‘  کوئی نیا چشمہ نکال دیجیے‘  سونے چاندی کا کوئی محل بنا دیجیے‘  آسمان سے کتاب لے کر آپ کو اترتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں‘ وغیرہ۔ ان کی طرف سے اس طرح کے تقاضے روز بروز زور پکڑتے جا رہے تھے اور عوام الناس میں یہ سوچ بڑھتی جا رہی تھی کہ ہمارے سرداروں کے یہ مطالبات ٹھیک ہی تو ہیں۔ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ  نے اپنی اپنی قوم کو کیسے کیسے معجزے دکھائے تھے! اگر آپ بھی نبوت کے دعوے دارہیں تو ویسے معجزات کیوں نہیں دکھاتے؟ جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ تھا کہ اب کوئی ایسا حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا۔ سب سے بڑا معجزہ قرآن نازل کر دیا گیا ہے۔ جو شخص حق کا طالب ہے اس کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔ ان حالات میں حضور کی جانِ مبارک کس قدر ضیق (تنگی)  میں آ چکی تھی۔ گویا چکی کے دو پاٹ تھے جن کے درمیان حضور کی ذاتِ گرامی آ گئی تھی۔ یہ اس سورۃ کا مرکزی مضمون ہے۔ آگے چل کر جب یہ موضوع اپنے  نقطہ ٔعروج (climax) کو پہنچتا ہے تواسے پڑھتے ہوئے واقعتا رونگٹے کھڑے ہو جانے والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔  

UP
X
<>