May 18, 2024

قرآن کریم > الأنعام >surah 6 ayat 151

قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ 

 (ان سے) کہو کہ : ’’ آؤ، میں تمہیں پڑھ کر سناؤ ں کہ تمہارے پروردگار نے (درحقیقت) تم پر کونسی باتیں حرام کی ہیں ۔ وہ یہ ہیں کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیں گے، اور اُن کو بھی۔ اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی، اور جس جان کو اﷲ نے حرمت عطا کی ہے اُسے کسی بر حق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو۔ لوگو ! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اﷲ نے تاکید کی ہے تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آئے

آیت 151:  قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ:  ’’کہیے آؤ میں تمہیں سناؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا چیزیں حرام کی ہیں ،،

            تم لوگ جب چاہتے ہو کسی بکری کو حرام قرار دے دیتے ہو، کبھی خود ہی کسی اونٹ کو محترم ٹھہرا لیتے ہو، اور اس پر مستزاد یہ کہ پھر اپنی ان خرافات کو اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہو۔ آؤ میں تمہیں واضح طور پر بتاؤں کہ اللہ نے اصل میں کن چیزوں کو محترم ٹھہرایا ہے، ممنوع اور حرام چیزوں کے بارے میں اللہ کے کیا احکام ہیں اور اس سلسلے میں اس نے کیا کیا حدود وقیود مقرر کی ہیں۔ یہ مضمون تفصیل کے ساتھ سورہ بنی اسرائیل میں آیا ہے۔ وہاں ان احکام کی تفصیل میں پورے دو رکوع (تیسرا اور چوتھا) نازل ہوئے ہیں۔ ایک طرح سے انہی احکام کا خلاصہ یہاں اِن آیات میں بیان ہوا ہے۔ شریعت کے بنیادی احکام دراصل ضرورت اور حکمتِ الٰہی کے مطابق قرآن حکیم میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں وارد ہوئے ہیں۔ سورۃ البقرۃ (دسویں رکوع) میں جہاں بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا ذکر آیا ہے وہاں دین کے اساسی نکات بھی بیان ہوئے ہیں۔ پھر اس کے بعد شرعی احکام کی کچھ تفصیل ہمیں سورۃ النساء میں ملتی ہے۔ اس کے بعد یہاں اس سورۃ میں اور پھر انہی احکام کی تفصیل سورہ بنی اسرائیل میں ہے۔

            اَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا:  ’’یہ کہ کسی شے کو اُس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔،،

            یعنی سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ شرک کو حرام ٹھہرایا ہے اور دوسرے نمبر پر والدین کے حقوق میں کوتاہی حرام قرار دی ہے۔ قرآن حکیم میں یہ تیسرا مقام ہے جہاں حقوق اللہ کے فوراً بعد حقوق ِوالدین کا تذکرہ آیا ہے۔ اس سے پہلے سورۃ البقرۃ آیت: 83 اور سورۃ النساء آیت: 36 میں والدین کے حقوق کا ذکر اللہ کے حقوق کے فوراً بعد کیا گیا ہے۔

            وَلاَ تَقْتُلُوْٓا اَوْلاَدَکُمْ مِّنْ اِمْلاَقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاہُمْ:  ’’اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو تنگ دستی کے خوف سے، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔،،

            وَلاَ تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ:  ’’ اور بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی مت جاؤ، خواہ وہ ظاہر ہوں یا خفیہ۔،،

            وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ:  ’’ اور مت قتل کرو اُس جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ۔،،

            بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسانی جان کو محترم ٹھہرایا ہے۔ لہٰذا کسی اصول، حق اور قانون کے تحت ہی انسانی جان کا قتل ہو سکتا ہے۔ قتلِ عمد کے بدلے میں قتل، قتل ِمرتد، مسلمان زانی یا زانیہ (اگر شادی شدہ ہوں) کا قتل، حربی کافر وغیرہ کا قتل۔ یہ انسانی قتل کی چند جائز اور قانونی صورتیں ہیں۔

            ذٰلِکُمْ وَصّٰٹکُمْ بِہ لَـعَلَّـکُمْ تَعْقِلُوْنَ:  ’’یہ باتیں ہیں جن کی اللہ تمہیں وصیت کر رہا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو۔،، 

UP
X
<>