May 19, 2024

قرآن کریم > الحـديد >sorah 57 ayat 27

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ ڏ وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ۭ وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا ۚ فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ

پھر ہم نے اُن کے پیچھے اُنہی کے نقشِ قدم پر اپنے اور پیغمبر بھیجے، اور اُن کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا، اور اُنہیں اِنجیل عطا کی، اور جن لوگوں نے اُن کی پیروی کی، اُن کے دلوں میں ہم نے شفقت اور رحم دِلی پیدا کر دی۔ اور جہاں تک رہبانیت کا تعلق ہے، وہ انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، ہم نے اُس کو ان کے ذمے واجب نہیں کیا تھا، لیکن انہوں نے اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنی چاہی، پھر اُس کی ویسی رعایت نہ کر سکے جیسے اُس کا حق تھا۔ غرض اُن میں سے جو اِیمان لائے تھے، اُن کو ہم نے اُن کا اَجر دیا، اور ان میں سے بہت لوگ نافرمان ہی رہے

آيت 27:  ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ:  «پھر هم نے بھيجے ان كے نقشِ قدم پر اپنے بهت سے رسول اور پھر ان كے پيچھے بھيجا هم نے عيسى بن مريم كو اور اسے هم نے انجيل عطا فرمائى»

آيت: 26 اور 27 ميں حضرت نوح، حضرت ابراهيم اور دوسرے انبيا ورسل عليهم السلام كا ذكر تمهيد كے طور پر هے. موضوع كے اعتبار سے اصل ميں يهاں حضرت عيسى عليه السلام كا تذكره كرنا مقصود هے جن كے پيروكاروں نے رهبانيت كى ابتدا كى تھى.

وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً:  «اور جن لوگوں نے اس كى پيروى كى هم نے ان كے دلوں ميں بڑى نرمى اور رحمت پيدا كر دى».

رأفت اور رحمت ملتے جلتے مفهوم كے دو الفاظ هيں. رأفت دراصل وه انسانى جذبه هے جس كے تحت انسان كسى كو تكليف ميں ديكھ كر تڑپ اٹھتا هے. بقول امير بينائى:

خنجر چلے كسى په   تڑپتے  هيں هم  امير

سارے جهاں كا درد همارے جگر ميں هے!

يعنى يه جذبه رأفت هى هے جس كى وجه سے انسان كسى كے درد كو اپنا درد سمجھتا هے، جبكه رحمت كا درجه انسان كو ترغيب ديتا هے كه وه دوسرے انسان كى تكليف دور كرنے كے ليے كوشش كرے. گويا رأفت كا جذبه بنيادى طور پر انسان كے دل ميں تحريك پيدا كرتا هے اور اس كے ردّعمل (reflex action) كا اظهار جذبه رحمت كى وجه سے هوتا هے. اس اعتبار سے رأفت اور رحمت باهم تكميلى (complementary) نوعيّت كے جذبات هيں. يهاں الله تعالى كى طرف سے گويا تصديق فرمائى گئى كه حضرت عيسى عليه السلام كے ماننے والوں كے دلوں كو خصوصى طور پر رأفت اور رحمت كے جذبات سے مزين كيا گيا تھا. اس كى وجه يه تھى كه حضرت عيسى عليه السلام خود بھى مزاج كے اعتبار سے انتهائى نرم اور رقيق القلب تھے، آپ عليه السلام كى شخصيت ميں سختى كا عنصر بالكل نهيں تھا. آپ عليه السلام كى شخصيت كے اس پهلو كا اندازه اس مثال سے لگايا جا سكتا هے كه ايك دفعه آپ عليه السلام نے ايك شخص كو چورى كرتے هوئے ديكھا تو پوچھا كه كيا تم چورى كر رهے هو؟ اس نے كها: نهيں، ميں چورى تو نهيں كر رها. آپ عليه السلام نے فرمايا: اچھا، تو پھر ميرى آنكھ نے غلط ديكھا هے. چنانچه آپ عليه السلام كى شخصيت كے زير اثر آپ عليه السلام كے حواريين كى طبيعتوں ميں بھى رأفت، رحمت، رقتِ قلب اور شفقت كے غير معمولى جذبات پيدا هو گئے تھے. يه جذبات بلاشبه اپنى جگه مستحسن هيں. خود حضور صلى الله عليه وسلم كے بارے ميں بھى الله تعالى نےسورة التوبه ميں فرمايا هے كه آپ صلى الله عليه وسلم اهلِ ايمان كے حق ميں بهت نرم دل اور شفيق هيں: (بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِيْمٌ). {رأفت اور رؤوف ايك هى مادے سے هيں}. بهرحال شيطان نے حضرت عيسى عليه السلام كے پيروكاروں كے مزاج كى نرمى سے فائده اٹھاتے هوئے ان كے ان جذبات كا رخ رهبانيت كى طرف موڑ ديا.

وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا:  «اور رهبانيت كى بدعت انهوں نے خود ايجاد كى تھى»

مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ:  «هم نے اُسے ان پر لازم نهيں كيا تھا مگر الله كى خوشنودى كى تلاش ميں»

اس فقرے كا ايك مفهوم تو يه هے كه يه رهبانيت انهوں نے الله كى رضا حاصل كرنے كے ليے اختيار كى تھى، اس ميں ان كى كسى بدنيتى كا عنصر شامل نهيں تھا. اس كا دوسرا مفهوم يه بھى هے كه هم نے تو ان پر كچھ لازم نهيں كيا تھا سوائے اس كے كه وه الله كى رضا تلاش كريں. ليكن انهوں نے الله كى رضا حاصل كرنے كے ليے نفس كشى (self annihilation)، تركِ دنيا رهبانيت اور تجرد (بغير نكاح كے) كى زندگى بسر كرنے كا راسته اختيار كر ليا. بهرحال حقيقت ميں يه الله كى رضا كا راسته نهيں تھا. الله كى رضا حاصل كرنے كا درست راسته تو جهاد كا راسته هے: (وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ) (المائدة: 35) «الله كا قرب تلاش كرو اور اس كى راه ميں جهاد كرو!» يعنى باطل كو ملياميٹ كرنے، حق كو غالب كرنے، ظلم ونا انصافى كو اكھاڑ پھينكنے اور عدل وقسط كو قائم كرنے كے ليے الله كے مجاهد بن جاؤ! اس راستے پر چلتے هوئے جان ومال كى قربانياں دو، فاقے برداشت كرو اور هر طرح كى تكاليف ومشكلات كا سامنا كرو. بهرحال شيطان نے حضرت عيسى عليه السلام كے پيروكاروں كو الله كا مقرب بننے اور اُس كى رضا تلاش كرنے كا يه راسته ان كى نظروں سے اوجھل كركے رهبانيت كے راستے پر ڈال ديا تاكه الله كے نيك اور مخلص بندے تمدّن كے معاملات سے لا تعلق رهيں اور معاشرے كے اندر ابليسيت كے ننگے ناچ كو روكنے ٹوكنے والا كوئى نه هو. دنيا ميں ظالموں اور شريروں كو كھلى چھوٹ حاصل هو اور ان كو چيلنج كرنے والا كوئى نه هو. علامه اقبال نے «ابليس كى مجلس شورى» ميں اس كى بهترين تعبير كى هے كه ابليس نے اپنے چيلے چانٹوں كو هدايات ديتے هوئے «مؤمن» كے بارے ميں كها كه:

مست ركھو ذكر وفكر صبح گاهى ميں اسے

پخته تر كر دو  مزاجِ خانقاهى  ميں اسے!

فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا:  «پھر وه اس كى رعايت بھى نه كرسكے جيسا كه اس كى رعايت كرنے كا حق تھا».

دراصل انسان كے ليے اپنے اوپر كوئى غير فطرى پابندى عائد كرنے كا فيصله كر لينا تو آسان هے مگر پھر سارى عمر اس فيصلے كو نبھانا بهت مشكل هے. يهى مشكل رهبانيت كا راسته اختيار كرنے والے لوگوں كو پيش آئى. راهب اور راهبانيين بظاهر تو مجرد زندگى بسر كرنے كا عهد كرتے ليكن پھر فطرت كے هاتھوں مجبور هو كر زنا كاريوں ميں ملوث هو جاتے. ان كے اس طرز عمل كا نتيجه يه نكلا كه راهب خانوں كے تهه خانے حرامى بچوں كے قبرستان بن گئے. histry of christian monasticism پر لكھى گئى كتابوں ميں اس بارے ميں لرزه خيز تفصيلات ملتى هيں. دراصل انسان كے جنسى جذبے كو غير فطرى طور پر دبانا ايسا هى هے جيسے بهتے دريا پر بند باندھنا. دريا كے پانى كو مناسب راسته دے كر تو اس پر بند باندھا جا سكتا هے ليكن دريا كے پورے پانى كو روكنا كسى طور پر بھى ممكن نهيں. ظاهر هے اگر كهيں كوئى ايسى كوشش هو گى تو اس كے خطرناك نتائج نكليں گے. يه لوگ خود تسليم كرتے هيں كه انسان كا جنسى جذبه بهت منه زور هے. سگمنڈ فرائڈ عيسائيوں كے گھر كا آدمى هے اور اس كى گواهى گويا (شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا) كا درجه ركھتى هے. انسان كے جنسى جذبے كو وه تمام جذبات پر غالب اور باقى تمام جذبات كا محرك قرار ديتا هے. اگرچه ميں ذاتى طور پر فرائڈ كے اس تجزيے سے متفق نهيں هوں اور ميرى يه رائے اكيلے فرائڈ يا اس كے اس تجزيے كے بارے ميں هى نهيں، بلكه ميں سمجھتا هوں كه بيشتر مغربى فلاسفر انسانى زندگى پر فلسفيانه بحث كے دوران اكثر غلط بينى اور كج روى كا شكار هو گئے هيں. جيسے فرائڈ كو هر طرف سيكس هى سيكس نظر آيا، كارل ماركس كى نظريں انسان كے پيٹ پر مركوز هو كر ره گئيں، جبكه ايڈلر صاحب كو انسان كے بڑا بننے كا جذبه (urge to dominate) هى هر طرف چھايا هوا دكھائى ديا. بهرحال مذكوره فلاسفرز نے اپنے اپنے مطالعے اور تجزيے ميں انسانى زندگى كے كسى ايك پهلو پر ضرورت سے زياده زور ديا هے اور بهت سے دوسرے اهم پهلوؤں كو بالكل هى نظر انداز كر ديا هے. لهذا ان ايسى آراء جزوى طور پر هى درست تسليم كى جا سكتى هيں. بهرحال اگر يه درست نه بھى هو كه انسان كا جنسى جذبه اس كے تمام جذبوں پر غالب اور اس كے باقى تمام جذبوں كا محرك هے تو بھى اس حقيقت سے كسى كو انكار نهيں كه انسان كا يه جذبه بهت منه زور هے اور اس كو غير فطرى طريقے سے قابو ميں لانا ممكن نهيں. يهى وجه هے كه اسلام نے اس جذبے كو نظم وضبط ميں لانے كے ليے نكاح كا فطرى راسته تجويز كيا هے. رهبانيت كے ليے اختيار كيے گئے طور طريقے زياده تر چونكه غير فطرى تھے اس ليے اسے اختيار كرنے والے لوگ اس كا حق ادا كرنے ميں برى طرح ناكام رهے.  

فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ:  «تو هم نے ان ميں سے ان لوگوں كو ان كا اجر ديا جو ايمان لے آئے».

ايك رائے كے مطابق يه عيسائيوں كے ان لوگوں كا ذكر هے جو حضور صلى الله عليه وسلم كى بعثت سے پهلے كے زمانے ميں صاحبِ ايمان تھے، ليكن اس سے ايك مفهوم يه بھى نكلتا هے كه ان ميں سے جو لوگ نبى آخر الزمان صلى الله عليه وسلم پر ايمان لا كر مسلمان هو گئے انهيں ان كا اجر ديا جائے گا.

وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ:  «ليكن ان كى اكثريت فاسقوں پر مشتمل هے».

UP
X
<>